Please wait..

صبح چمن

پھول

 
شاید تو سمجھتی تھی وطن دُور ہے میرا
اے قاصدِ افلاک! نہیں دُور نہیں ہے

معانی: قاصد افلاک: آسمانوں کا پیغام لانے والی یعنی شبنم ۔ وطن: جائے سکونت، ملک
مطلب: پھول شبنم سے کہتا ہے کہ توشاید یہ سمجھ رہی تھی کہ میرا گھر تجھ سے بہت دور ہے لیکن اے آسمانوں کی پیغام بر میں تجھ سے کہتا ہوں کہ جو تو سمجھی ہوئی ہے وہ صحیح نہیں ہے ۔ میرا وطن تجھ سے بہت دور نہیں ہ ۔

شبنم

 
ہوتا ہے مگر محنتِ پرواز سے روشن
یہ نکتہ کہ گردوں سے ز میں دُور نہیں ہے

معانی: محنت پرواز: اڑان کی مشقت ۔ نکتہ: باریک بات ۔ گردوں : آسمان
مطلب: شبنم پھول کو جواب دیتی ہے کہ بے شک تیری یہ بات درست ہے کہ زمین اور آسمان کا فاصلہ میرے لیے دور کا نہیں ہے لیکن یہ باریک بات کہ آسمان سے زمین دور نہیں ہے صرف اسی پر واضح ہوتی ہے جو اڑان کی محنت اٹھاتا ہے ۔ اس مشقت کے بغیر آسمان سے زمین دور ہی نظر آئے گی ۔

صبح

 
مانندِ سحر صحنِ گلستاں میں قدم رکھ
آئے تہِ پا گوہرِ شبنم تو نہ ٹوٹے

معانی: مانند سحر: صبح کی مانند ۔ صحن گلستاں : باغ کا صحن ۔ تہ پا: پاؤں کے نیچے ۔ گوہر شبنم: شبنم کا موتی ۔ کوہ و بیاباں : پہاڑ اور جنگل ۔
مطلب:صبح پھول اور شبنم دونوں سے کہتی ہے کہ جس طرح صبح آہستگی اور پیار سے باغ کے صحن میں قدم رکھتی ہے اور اس سے باغ کی کسی بھی شے کا نقصان نہیں ہوتا ۔ تمہیں بھی چاہیے کہ صبح کی مانند باغ کے صحن میں اس طرح قدم رکھو کہ اگر تمہارے قدموں کے نیچے شبنم کا موتی بھی آ جائے تو وہ ٹوٹنے نہ پائے ۔ مراد یہ ہے کہ انسان کو دنیا میں اس طرح زندگی بسر کرنی چاہیے کہ جس سے دوسروں کو راحت ہو تکلیف نہ ہو ۔

 
ہو کوہ و بیاباں سے ہم آغوش و لیکن
ہاتھوں سے ترے دامنِ افلاک نہ چھوٹے

معانی: ہم آغوش: بغل گیر ۔ دامن افلاک: آسمانوں کا دامن ۔
مطلب: صبح ان سے مزید کہتی ہے کہ بے شک تم پہاڑوں اور جنگلوں سے بغل گیر رہو لیکن تمہارے ہاتھوں سے آسمان کا دامن نہ چھوٹنے پائے ۔ اس میں انسان کے لیے یہ پیغام ہے کہ بے شک وہ زمینی ہے لیکن اسے بلند پروازی کا خیال رہنا چاہیے اور ترقی کرتے ہوئے آگے سے آگے بڑھتے رہنا چاہیے ۔