Please wait..

(23)

 
تری نگاہ فرومایہ ہاتھ ہے کوتاہ
ترا گنہ کہ نخیلِ بلند کا ہے گناہ

معانی: فرومایہ: کمزور ۔ کوتاہ: جھوٹا ۔ نخیل بلند: بلند پودا ۔
مطلب: نظم کے اولین شعر میں معمول کے مطابق مسلمان سے خطاب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے کہ تیری نگاہ دوررس نہیں اور ہاتھ بھی اتنا چھوٹا ہے کہ بلندی تک اس کی رسائی ممکن نہیں ہے ۔ چنانچہ اگر تو کھجور کے بلند و بالا درخت سے پھل نہیں توڑ سکتا تو اس میں قصور درخت کا ہے یا تیرا! مراد یہ ہے کہ مقاصد بلند ہوں تو انسان کے حوصلے بھی بلند ہونا چاہیں ۔

 
گلا تو گھونٹ دیا اہلِ مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدا لا الہ الّا اللہ

مطلب: اس شعر میں اقبال نے نظام تعلیم کی خامیوں کی جانب اشارہ کیا ہے جس کے باعث مسلمان اپنی دینی تعلیم و تربیت سے محروم رہ جاتے ہیں ۔ یہ تعلیم تو طلبا کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم کر کے رکھ دیتی ہے ۔ پھر وہ نعرہ حق کیسے بلند کر سکتے ہیں ۔

 
خودی میں گم ہے خدائی تلاش کر غافل
یہی ہے تیرے لیے اب صلاحِ کار کی راہ

مطلب: تیرے لیے اب فلاح کی راہ یہی ہے کہ خدائی جو خودی میں پوشیدہ ہے اس کو پھر سے ڈھونڈ نکال کہ اسی میں تیری بہتری ہے ۔

 
حدیثِ دل کسی درویشِ بے گلیم سے پوچھ
خدا کرے تجھے تیرے مقام سے آگاہ

معانی: درویش بے گلیم: بغیر گدڑی کے درویش ۔
مطلب: دل میں جو رازہائے درون پردہ موجود ہیں ان کے بارے میں کسی حقیقی درویش سے استفسار کر وہی تجھے تیرے صحیح مقام سے آگاہ کر سکتا ہے لیکن اس جعلی درویش سے احتزاز کر جس نے ایک نمائشی گدڑی کاندھوں پر ڈال رکھی ہے ۔

 
برہنہ سَر ہے تو عزمِ بلند پیدا کر
یہاں فقط سرِ شاہیں کے واسطے ہے کلاہ

معانی: برہنہ سر: ننگے سر ۔
مطلب: اپنے سر پر کامیابی کا تاج رکھنا ہے تو پھر اپنے عزائم اور حوصلے بلند رکھ کہ بلند پروازی شاہین کی روایت ہے تو بھی شاہین کی پیروی کر ۔

 
نہ ہے ستارے کی گردش نہ بازیِ افلاک
خودی کی موت ہے تیرا زوالِ نعمت و جاہ

معانی: زوالِ نعمت و جاہ: امیری کا زوال ۔
مطلب: تو جو اقتدار اور نعمتوں سے محروم ہو گیا ہے تو تقدیر آسمان و ستاروں کو اسی صورت حال کا ذمہ دار سمجھتا ہے بنیادی طور پر یہ سوچ ہی غلط ہے ۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ تونے خودی سے رشتہ کاٹ دیا ہے اور دل عزم و حوصلے سے خالی ہو گیا ہے ۔

 
اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غمناک
نہ زندگی، نہ محبت، نہ معرفت، نہ نگاہ

مطلب: افسوسناک بات یہ ہے کہ ظاہری اور باطنی علوم کے تمام ادارے اپنے حقیقی مسلک سے محروم ہو گئے ہیں ۔ نہ ان میں زندگی کی رمق باقی رہی اس کے علاوہ یہاں اب محبت و معرفت کا بھی فقدان ہے ۔ یہ ادارے تو اپنی حقیقی روح سے محروم ہو چکے ہیں ۔