سلطانی
کسے خبر کہ ہزاروں مقام رکھتا ہے وہ فقر جس میں ہے بے پردہ روحِ قرآنی
معانی: بے پردہ: پردے کے بغیر، ظاہر ۔
مطلب: اس راز کی کسے خبر ہے یعنی بہت کم لوگ اس بات کو جانتے ہیں کہ وہ فقر جس میں قرآن کی روح ظاہر ہو ہزاروں مقام رکھتا ہے ۔ سلطانی بھی اس کا ایک مقام ہے وہ مرد درویش جس کی درویشی میں قرآن کی روح بیدار ہوتی ہے وہ بہ ظاہر کچھ نہ کچھ ہو سلاطین زمانہ سے بلند تر ہوتا ہے ۔ اس فقر کے آگے دارا اور سکندر جیسے سلطان جھکتے ہیں ۔ اصل سلطانی اسی مرد درویش کی سلطانی ہے جو اسلامی فقر کا حامل ہے ۔
خودی کو جب نظر آتی ہے قاہری اپنی یہی مقام ہے کہتے ہیں جس کو سلطانی
معانی: سلطانی: حکومت، قوت ۔
مطلب: جب خودی کو یہ نظر آتا ہے کہ وہ اپنے اندر ہر دوسری شے پر غلبہ پانے کی طاقت رکھتی ہے اور وہ ہر ایک پر فاتحانہ شان سے حکمرانی کر سکتی ہے تو اس کے اسی مقام کو ہی سلطانی کہتے ہیں ۔ یہ وہ سلطانی ہے جس کو زوال نہیں ہے ورنہ وہ سلطانی جو عام مفہوم میں سلطانی کہلاتی ہے آج ہے کل نہیں ہو سکتی ۔
یہی مقام ہے مومن کی قوتوں کا عیار اسی مقام سے آدم ہے ظلِ سبحانی
معانی: عیار: کسوٹی ۔ ظلِ سبحانی: خدا کا سایہ مراد حکومت کا مالک ۔
مطلب: جب مومن خودی کے اس مقام پر ہوتا ہے کہ اس کی خودی ہر شے پر غلبہ پا لیتی ہے تو یہی وہ مقام ہے جس سے مومن کی قوتوں کی پرکھ ہو سکتی ہے ۔ یہ ایک قسم کی کسوٹی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ مومن کس مقام پر ہے ۔ یہی وہ مقام ہے جس سے آدم کو خدا کا سایہ کہتے ہیں ۔ عام طور پر بادشاہوں کو ظل سبحانی کہا جاتا ہے لیکن یہ محض رسمی مقولہ ہے اصل ظل سبحانی وہ سلطان ہے جس کی خودی کو اپنی قاہری نظر آتی ہے ۔ ایسے ہی سلطان خلافت یا خدا کے نائب ہونے کے حق دار ہوتے ہیں ۔
یہ جبر و قہر نہیں ہے یہ عشق و مستی ہے کہ جبر و قہر سے ممکن نہیں جہانبانی
معانی: جبر و قہر: زیادتی ۔ جہانبانی: حکومت ۔
مطلب: خودی کے مقام کو پانے والا سلطان دنیا کے عام سلطانوں کی طرح جابر اور قاہر نہیں ہوتا ۔ وہ دوسروں پر ظلم و ستم نہیں کرتا کیونکہ جبر و قہر سے دوسروں پر حکمرانی کرنا ممکن نہیں ۔ اصل جہانبانی جبر و قہر سے نہیں عشق و مستی سے کی جاتی ہے ۔ جبر و قہر سے لوگوں کے جسموں پر تو حکمرانی ہو سکتی ہے لیکن دلوں پر نہیں ۔
کیا گیا ہے غلامی میں مبتلا تجھ کو کہ تجھ سے ہو نہ سکی فقر کی نگہبانی
معانی: مبتلا: پابند ۔ نگہبانی: دیکھ بھال ۔
مطلب: اس شعر میں علامہ اپنے دور کے مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قدرت نے تمہیں دوسروں کا اس لیے محکوم بنا دیا ہے کہ تم سے اس فقر کی حفاظت نہ ہو سکی جو اسلامی فقر کہلاتا ہے ۔
مثالِ ماہ چمکتا تھا جس کا داغِ سجود خرید لی ہے فرنگی نے وہ مسلمانی
معانی : داغِ سجود: سجدے کا داغ ۔ فرنگی: انگریز ۔
مطلب: جن مسلمانوں کے ماتھوں پر کبھی سجدوں کے نشان چاند کی طرح چمکتے تھے آج یورپی قوموں نے ان سے وہ مسلمانی ان سے خرید لی ہے ۔ مراد یہ ہے کہ آج کے مسلمانوں نے اپنے مفاد اور غرض کی خاطر اسلام کی روح چھوڑ دی ہے اور محض رسمی مسلمان باقی رہ گیا ہے اور وہ انگریزی تہذیب و ثقافت کا علم بردار بن کر اپنی مسلمانی روایات کھو بیٹھا ہے ۔
ہوا حریفِ مہ و آفتاب تو جس سے رہی نہ تیرے ستاروں میں وہ درخشانی
معانی: حریف: مخالف ۔ درخشانی: چمک ۔
مطلب: آسمان اسلام پر چمکنے والے جو ستارے کبھی سورج اور چاند کے مدمقابل آتے تھے اور ان کی روشنی کو مدھم کر دیتے تھے آج وہ ستارے خود اپنی روشنی سے محروم ہو گئے ہیں ۔ سبب اس کا صرف اور صرف یہ ہے کہ مسلمان سے فقر کی نگہبانی نہ ہو سکی اور وہ اپنی خودی کے مقام سے گر گیا ۔