بڈّھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو
ہو تیرے بیاباں کی ہوا تجھ کو گوارا اس دشت سے بہتر ہے نہ دلّی ، نہ بخارا
تعارف: بلوچ ایک قبیلہ ہے جو برصغیر کے شمال کے علاقہ بلوچستان میں آباد ہے ۔ بلوچ اس قبیلے کا ایک فرد)
معانی: گوارا: پسندیدہ ۔ بیاباں : دشت ۔ دلی: برصغیر کا ایک شہر ۔ بخارا: وسطی ایشیا کا ایک شہر ۔
مطلب: بڈھا بلوچ اپنے بیٹے کو کہتا ہے کہ دلی اور بخارا بڑے پر رونق شہر ہیں اور وہاں زندگی کی ہر قسم کی سہولتیں اور عشرت موجود ہے لیکن جو بات تیرے علاقہ بلوچستان میں ہے وہ ان شہروں میں کہاں ہے ۔ یہ علاقہ اگرچہ بیابان ہے ۔ یہاں آبادی کم اور خشک علاقے اور پہاڑ زیادہ ہیں لیکن جو آزادی اور خوش گواری یہاں ہے وہ شہروں میں کہاں ۔ خدا کرے کہ اس علاقہ کی آب و ہوا تجھ کو پسند رہے (بڈھا بلوچ حقیقی نہیں ایک خیالی کردار ہے ۔ ) ۔
جس سمت میں چاہے صفتِ سیلِ رواں چل وادی یہ ہماری ہے، وہ صحرا بھی ہمارا
معانی: صفت: مثل، مانند ۔ سیل رواں : بہتا ہوا سیلاب ۔ سمت: طرف ۔ وادی: دو پہاڑوں کے درمیان کی جگہ ۔ صحرا: جہاں سبزہ زار نہ ہو، ریت ہو ۔
مطلب: بلوچستان کا علاقہ وسیع ہے ۔ شہروں کی طرح محدود نہیں ۔ یہاں پہاڑوں کے درمیان وادیاں بھی ہیں ریگستان بھی ہے تو جس طرف کو چاہے بہتے ہوئے سیلاب کی طرح نکل جا ۔ تجھے کوئی روکنے والا نہیں ۔
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا
معانی: غیرت: اپنی عزت یا عزت نفس برقرار رکھنے کا جذبہ ۔ جہان تگ و دو: یہ دنیا جہاں زندگی گزارنے کے لیے بڑی دوڑ دھوپ کرنی پڑتی ہے ۔ درویش: خدا سے لو لگائے ہوئے دنیاوی سازوسامان سے بے گانہ شخص ۔ تاج سردارا: دارا کے سر کا تاج، دارا ایران کا ایک بادشاہ گزرا ہے ۔
مطلب: انسان کے لیے اصل سرمایہ دنیا کا سازوسامان اور آرائش و آسائش نہیں بلکہ اپنی عزت اور عزت نفس کو برقرار رکھنا ہے ۔ یہ وہ جذبہ ہے جو خدا مست اور دنیا سے بے نیاز شخص کو دارا کا تاج پہناتی ہے ۔ وہ بوریا نشیں ہو کر بھی تخت نشیں ہوتا ہے اس لیے تو اسے علاقے میں دلی اور بخارا جیسی رونق نہ ہونے کو دیکھ بلکہ یہ دیکھ کہ جو عزت نفس تو یہاں ملحوظ خاطر رکھ سکتا ہے وہ ان شہروں میں نہیں ہے ۔
حاصل کسی کامل سے یہ پوشیدہ ہنر کر کہتے ہیں کہ شیشہ کو بنا سکتے ہیں خارا
معانی: کامل: اللہ وہ بندہ جو درویشی میں کمال رکھتا ہے، مراد فقیر یا ولی یا درویش ۔ پوشیدہ: ہنر: چھپا ہوا ۔ خارا: پتھر ۔
مطلب: یہ چھپا ہوا فن یا باطنی علم کہ جس کی بدولت دارا کا تخت و تاج ایک درویش کے پاؤں کے نیچے ہوتا ہے اور بادشاہ اس کے در کے غلام بن جاتے ہیں کسی مرد کامل ، کسی ولی کو ڈھونڈ کر اس سے حاصل کر کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ اس میں شیشے کو پتھر بنانے کی صلاحیت ہوتی ہے ۔ مراد ہے دنیاوی سازوسامان اور شان وشکوہ نہ رکھنے والے کو ایسی بے نیازانہ شان عطا کرتا ہے کہ دنیاوی جاہ و جلال والے بھی اس کی چوکھٹ پر سر جھکاتے ہیں ۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
معانی: افراد: فرد کی جمع، اشخاص ۔ اقوام: قوم کی جمع ۔ تقدیر: قسمت ۔ ملت: قوم یہاں مراد ہے ۔ مقدر: نصیب، قسمت ۔
مطلب: یہاں بڈھا بلوچ فرد اور جماعت کے تعلق کو بیان کرتا ہے اور کہتا ہے کہ قوموں کی قسمت کا اچھا یا برا ہونا ان کے اشخاص پر منحصر ہے ۔ اگر فرد اچھے ہوں گے تو قوم بھی اچھی ہو گی اگر افراد برے ہوں گے تو قوم بھی بری ہو گی ۔ میں مسلمان قو م کے ایک ایک شخص کو اس قوم کے نصیب کا نشان سمجھتا ہوں ۔ اگر یہ ستارے بابرکت ہوں گے مراد ہے مسلمان فردا فردا اچھے ہوں گے تو مسلمان قوم بھی اچھی ہو گی ۔
محروم رہا دولتِ دریا سے وہ غواص کرتا نہیں جو صحبتِ ساحل سے کنارا
معانی: محروم: بے نصیب ۔ دولت دریا: دریا کی دولت، موتی وغیرہ ۔ غواص: غوطہ لگانے والا ۔ کناراکرنا: ساحل کو چھوڑنا ۔
مطلب: دریا میں موتی حاصل کرنے کے لیے غوطہ لگانے والا جو غوطہ خور ساحل پر ہی بیٹھا رہتا ہے اور دریا میں غوطہ نہیں لگاتا وہ موتیوں کی دولت سے بے نصیب رہتا ہے ۔ مراد یہ ہے کہ دنیا میں قوموں کی خوش حالی کا دارومدار ان کے افراد کی عملی میدان میں دوڑ دھوپ پر ہے ۔ جس قوم کے افراد محنت کش ، باعمل اور باغیرت ہوتے ہیں وہ قوم ترقی پر فائز ہو جاتی ہے اور اگر اس کے برعکس ہو تو ان کی بے عملی اور بے غیرتی قوم کو لے ڈوبتی ہے ۔
دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملت ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارا
معانی: دیں : مذہب اسلام ۔ ملت: مسلمان قوم ۔ تجارت: کاروبار ۔ خسارہ: گھاٹا ۔
مطلب: اگر اپنے مذہب کو چھوڑ کر مسلمان دوسروں کی غلامی سے آزاد ہوتے ہیں تو اس کاروبار میں مسلمان کا گھاٹا ہے ۔ کیونکہ اس کا اصل سرمایہ اس کا مذہب ہے ۔ آج کل سیاست سے دین کو الگ رکھنے کا مسلمانوں میں ابلیسی نظام نے جو رجحان پیدا کر رکھا ہے اس شعر میں اس کی طرف اشارہ ہے ۔
دنیا کو ہے پھر معرکہَ روح و بدن پیش تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا
معانی: معرکہ روح و بدن: روح اور جسم یا من اور تن میں جنگ ۔ تہذیب: جدید تہذیب، مغرب کی تہذیب ۔ درندہ: جنگل کا خونخوار جانور ۔
مطلب: مغربی تہذیب و ثقافت، علوم و فنون اور سیاسی و معاشرتی نظاموں نے انسانوں کو جنگل کے خونخوار جانور بنا کر رکھ دیا ہے ۔ ہر کوئی بدن کی آسائش کے درپے ہے اور روح اور اس کے تقاضوں کو بھول چکا ہے ۔ ایسا جسم جو روحانی قدروں کے بغیر ہو انسان نما حیوان کا ہی ہو سکتا ہے ۔ آج پھر روح اور جسم میں جنگ چھڑی ہوئی ہے ۔ اس کا علاج صرف اسلام کے پاس ہے ۔ اگر پہلے مسلمان قوم خود اور پھر ان کی پیروی میں اقوام دین اسلام کے بدن و روح دونوں کی پرورش کرنے والے نظام کو اپنا لیں تو افراد بھی صفاتی اعتبار سے انسان رہ سکتے ہیں اور اقوام بھی درندوں کی بجائے انسانوں پر مشتمل ہو سکتی ہے ۔
اللہ کو پامردیِ مومن پہ بھروسا ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا
معانی: پامردی: استقلال ۔ بھروسا: اعتبار ۔ ابلیس: شیطان ۔ یورپ کی مشینوں کا سہارا: یورپ کی صنعتی ترقی کا اور ہر میدان میں مشینوں کے استعمال پر بھروسا ۔
مطلب: رو ح اور بدن کے اس معرکہ میں جس کا اوپر کے شعر میں ذکر ہوا ہے دو فریق آمنے سامنے ہیں ۔ ایک فریق اللہ ہے اور دوسرا شیطان ۔ اللہ کو اہل ایمان کے استقلال پر بھروسا ہے کہ اگر انھوں نے دین کے میدان میں مضبوطی سے اپنے پاؤں جما رکھے تو فتح روح کی ہو گی انسان کی ہو گی ۔ اس کی مقابلے میں اگر یورپ کی صنعتی ترقی والی اقوام چھائی رہیں تو پھر شیطان کی فتح ہو گی ۔ بدن فربہ ہو جائے گا روح مٹ جائے گی ۔ انسان نما درندے پیدا ہوتے رہیں گے انسان ختم ہو جائیں گے ۔
تقدیرِ امم کیا ہے کوئی کہہ نہیں سکتا مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارا
معانی: امم: امت کی جمع، قو میں ۔ فراست: دانائی، بصیرت ۔ تقدیر: قسمت، نصیب ۔
مطلب: قوموں کی تقدیر، نصیب یا قسمت میں کیا ہے کوئی نہیں کہہ سکتا ۔ لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ اگر کوئی مرد مومن ہو کوئی اللہ کا کامل مرد ہو تو اس کی بصیرت میں یہ صفت پوشیدہ ہے کہ وہ اپنے ایک اشارے سے قوم کی تقدیر بدل سکتا ہے ۔ کوئی وقت تھا کہ مسلمان قوم میں ایسے بے شمار مرد کامل ہوتے تھے اب مسلمان اس مرد درویش یا مرد فقیر یا مرد مومن کو ترس گئے ہیں ۔
اخلاصِ عمل مانگ نیاگانِ کہن سے شاہان چہ عجب گر بنوازند گدا را
معانی: اخلاص عمل:عمل میں خلوص ۔ نیاگان کہن: قدیم زمانے کے بزرگ ۔ شاہاں : شاہ کی جمع، بادشاہ ۔ چہ عجب: کیا عجب ہے ۔ بنوازند: نواز دیں ۔ گدارا: غریب کو، بھکاری کو ۔
مطلب: اے عہد حاضر کے مسلمان اے میرے بیٹے عمل میں اخلاص پیدا کر ۔ اور یہ اخلاص عمل اپنے پرانے اور گزرے ہوئے بزرگوں سے مانگ ۔ کیونکہ ان کا ہر عمل اللہ کے لیے ہوتا ہے ۔ ذاتی اغراض کے لیے نہیں ۔ اگر تیرے پاس بھی یہ اخلاص عمل آ گیا تو پہلے کی طرح تو دنیا میں پھر سرفراز ہو سکتا ہے ۔ کیا عجب ہے کہ بادشاہ بھکاری کو نواز دیں اور اسے ہر احتیاج سے سرخرو کر دیں مراد ہے کہ اے مسلمان اگر تو پھر سے اپنے اعلیٰ ماضی کے بزرگوں کی روایات کو اپنا لے تو سرفرازی پھر تیری قسمت بن سکتی ہے ۔