سرودِ حلال
کھل تو جاتا ہے مغنی کے بم و زیر سے دل نہ رہا زندہ و پایندہ تو کیا دل کی کشود
معانی: سرود حلال: جائز موسیقی یا راگ، وہ موسیقی جو شرعاً حلال ہو حرام نہ ہو ۔ مغنی: گانے والا ۔ بم و زیر: اونچ نیچ ۔ پائندہ: ہمیشہ رہنے والا ۔ دل کی کشود: دل کا شگفتہ ہونا ۔
مطلب: کسی گانے والے کے سر تال کی اونچ نیچ سے دل میں شگفتگی اور کشادگی تو ضرور پیدا ہو جاتی ہے لیکن اگر یہ اثروقتی ہو اور ہمیشہ کے لیے زندہ اورقائم رہنے والا نہ ہو تو دل کی ایسی شگفتگی بے معنی ہے ۔
ہے ابھی سینہَ افلاک میں پنہاں وہ نوا جس کی گرمی سے پگھل جائے ستاروں کا وجود
معانی: سینہ افلاک: آسمانوں کا سینہ ۔ پنہاں : چھپا ہوا ۔ نوا: آواز ۔ وجود: جسم ۔ افلاک: فلک کی جمع، آسمان ۔
مطلب: شاعر کا خیال ہے کہ ابھی تک ایسا نغمہ جس سے دل کی صحیح کشود ہو اس کی آواز کہیں آسمان کے سینے میں چھپی ہوئی ہے ۔ یہ آواز وہ آواز ہے کہ جب کسی کے سینے سے نکلے تو ستاروں کے جسم بھی پگھل جائیں ۔ موسیقی کی ایسی نوا تو جائز ہے لیکن جس سے اس کے الٹ دل افسردہ ہو جائز نہیں ہے ۔
جس کی تاثیر سے آدم ہو غم و خوف سے پاک اور پیدا ہو ایازی سے مقامِ محمود
معانی: ایازی: ایاز سلطان محمود کا غلام تھا یہاں مراد غلامی ۔ مقام محمود: سلطان محمود غزنوی کا مرتبہ، یہاں مراد ہے حکمرانی اور سلطانی ۔
مطلب: شاعر کے نزدیک وہ نغمہ جو جائز ہے اس کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس کو سن کر آدمی غم اور خوف سے آزاد ہو کر اس کی تاثیر کی لہر میں بہہ جائے اور سب کچھ بھول جائے ۔ اس کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ غلاموں کے اندر ایسا جذبہ اور ہمت پیدا ہو کہ وہ سلطانی اور حکمرانی کے خواب دیکھنے لگیں ۔ اگر نغمے کی تاثیر یہ ہو کہ اس کو سن کر آدمی غفلت میں چلا جائے تو یہ سرود حلال نہیں ہے ۔
مہ و انجم کا یہ حیرت کدہ باقی نہ رہے تو رہے اور ترا زمزمہ لاموجود
معانی: مہ و انجم: چاند اور تارے ۔ حیرت کدہ: حیرانی کا گھر ۔ زمزمہ لاموجود: اللہ کے سوا کسی اور کے موجود نہ ہونے کا راگ ۔
مطلب: وہ نغمہ جو شاعر کے نزدیک ابھی آسمان کے سینے میں چھپا ہوا ہے اس کا ایک اور وصف یہ بتایا گیا ہے کہ اس کو سن کر سننے والے کے سامنے یا ذہن میں چاند اور تاروں کا یہ حیرانی کا گھر باقی نہ رہے یعنی سننے والا دنیا اور مافیہاسے بے خبر ہو جائے ۔ سب کچھ مٹ کر صرف سننے والے کا اپنا وجود اور وہ توحید کا نغمہ باقی رہ جائے ۔ جس کی بنا پر اللہ کے سوا ہر دوسری چیز لا یعنی نہیں ہو جاتی ۔
جس کو مشروع سمجھتے ہیں فقیہانِ خودی منتظر ہے کسی مطرب کا ابھی تک وہ سرود
معانی: مشروع سمجھنا: شرع کے نزدیک جائز سمجھنا ۔ فقیہانِ خودی: خودی کے عالم ۔ مطرب: گانے والا ۔ سرود: راگ ۔
مطلب: ایسا راگ جس کے اوصاف مذکورہ بالا شعروں میں بیان ہوئے ہیں اور جن کو خودی کے عالم شرع کے مطابق جائز سمجھتے ہیں وہ ابھی تک اس انتظار میں ہے کہ کوئی گانے والا پیدا ہو اور اسے گائے ۔