مخلوقات ہنر
ہے یہ فردوسِ نظر اہلِ ہنر کی تعمیر فاش ہے چشمِ تماشا پہ نہاں خانہَ ذات
معانی: مخلوقات ہنر: اہل فن کی تخلیقات یا جو ہنر اور فن وہ پیش کرتے ہیں ۔ فردوس نظر: نظر کی جنت ۔ اہل ہنر: اہل فن ۔ فاش: کھلا ۔ چشم تماشا: دیکھنے والی آنکھ ۔ نہاں خانہ ذات: ذات کا اندرون خانہ ۔
مطلب: عہد حاضر کے فن کاروں کی تخلیقات کو ذہن میں رکھتے ہوئے شاعر کہتا ہے کہ ظاہری لحاظ سے تو ان کے فن پارے دیکھنے والوں کی آنکھوں کے لیے جنت کا کام کرتے ہیں یعنی بڑے خوش نما دکھائی دیتے ہیں لیکن جو لوگ دیکھنے کا صحیح ذوق رکھتے ہیں ان پر ان فن پاروں کے خالقوں کی ذات کا اندرون پوری طرح ظاہر ہے وہ اپنے تاریک اور بے نور اندرون کی بدولت ایسے فن پارے تخلیق نہیں کر سکتے جن کے اندرون خوبصورت ہوں ۔ ان کے فن پارے ہمیں ان کے اندرون کا اس لیے پتہ دیتے ہیں کہ فن، فنکار کی شخصیت کا آئینہ ہوتا ہے ۔
نہ خودی ہے، نہ جہانِ سحر و شام کے دور زندگانی کی حریفانہ کشاکش سے نجات
معانی: جہان سحر و شام: زندگی کی صبح و شام کے دور کی بات ۔ زندگانی کی حریفانہ کشاکش: زندگی میں آپس میں جو تصادم اور کھینچا تانی ہوتی ہے ۔ نجات: فراغت ۔
مطلب: عہد حاضر کے فن کاروں کے فن پاروں میں نہ تو ان کی خود معرفتی کی بات ہوتی ہے اور نہ شام و سحر کے جہان کے کسی دور کی عکاسی ہوتی ہے ۔ وہ زندگی اور زندگی کی کیفیات و واردات کے عکاس نہیں ہوتے بلکہ محض تفریح طبع کے لیے ہوتے ہیں اور ان میں زندگی کو مشکلات اور حالات کے تصادم اور ان پر فتح یاب ہونے کے لیے جس کش مکش کی ضرورت ہے اس کی باتیں بھی نہیں ہوتی ہیں ۔ وہ خودی اور زندگی دونوں سے عاری ہوتے ہیں ۔
آہ! وہ کافرِ بیچارہ کہ ہیں اس کے صنم عصرِ رفتہ کے وہی ٹوٹے ہوئے لات و منات
معانی: کافرِ بیچارہ: بے بس منکر ۔ عصر رفتہ: گزرا ہوا زمانہ ۔ صنم: بت ۔ لات و منات: کعبے میں جو بت رکھے ہوئے تھے ان میں سے دو کے نام ۔
مطلب: علامہ نے عہد حاضر کے فن کاروں اور اہل ہنر کو منکر بے بس کہا ہے کیونکہ وہ زندگی کی اصل حقیقتوں سے بے گانہ، حق سے دور اور خودی سے محروم ہیں ۔ یہ اپنی کوشش سے ایسی تخلیقات پیدا کرتے ہیں جو باطل کی اور بتوں کی حامل ہوتی ہے ۔ صداقت اور حق سے وہ خالی ہوتی ہیں ۔ یہ دیکھنے والے کو فائدہ کی بجائے نقصان پہنچاتی ہیں ۔ اور زندگی کی اصلیت سے دور لے جاتی ہیں ۔
تو ہے میّت ! یہ ہنر تیرے جنازے کا امام نظر آئی جسے مرقد کے شبستاں میں حیات
معانی : میت: مردہ ۔ مرقد: قبر ۔ شبستان: خواب گاہ ۔ حیات: زندگی ۔
مطلب: اے جدید دور کے اہل فن تیرا فن مردہ ہے اس لیے کہ تو مردہ ہے تو ایک مردہ کی مانند ہے اور تیرا فن تیرے جنازے کا امام ہے ۔ جس طرح مردہ گھر کا قبر ہوتا ہے اسی طرح تجھے بھی اپنی خواب گاہ قبر ہی دکھائی دی ہے ۔ تجھ میں اورتیرے فن میں زندگی کے کہیں آثار نظر نہیں آتے ۔ میں نے تیرے ہنر کی ہر طرح کی کاوش دیکھی ہے ۔ تیرا رب، تیرا شعر، تیری مصوری، تیری گائیکی، تیری سازندگی، تیری تعمیرات وغیرہ میں کہیں زندگی کی حرارت نہیں ہے ۔ سوائے تفریح طبع کی آسودگی اور عورت کی اعصابی سواری کے تیرے ہنر میں کچھ نظر نہیں آتا ۔