Please wait..

(48)

 
نہ تخت و تاج میں ، نے لشکر و سپاہ میں ہے
جو بات مردِ قلندر کی بارگاہ میں ہے

معانی: مردِ قلندر: مردِ مومن ۔
مطلب: مطلع میں اقبال کہتے ہیں کہ سچے اور حقیقی درویش کی بارگاہ میں جس دلاویز کیفیت کا اظہار ہوتا ہے وہ نہ تو تخت و تاج کے سربراہی میں ملتی ہے نا ہی لشکروں کی سالاری میں اتنا لطف آتا ہے ۔ مراد یہ ہے کہ مرد قلندر کو ہی وہ مقام حاصل ہے جو انسان کو روح عصر سے آگاہ کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے ۔

 
صنم کدہ ہے جہاں اور مردِ حق ہے خلیل 
یہ نکتہ وہ ہے کہ پوشیدہ لا الٰہ میں ہے

مطلب: حضرت ابراہیم خلیل اللہ کو قدرت نے یہ شرف بخشا کہ وہ خانہ کعبہ کو بتوں سے پاک کر دیں چنانچہ حضرت ابراہیم نے یہ فریضہ بخوبی سر انجام دے کر یہ ثابت کر دیا کہ خالق حقیقی رب ذوالجلال کے علاوہ اور کوئی نہیں ۔

 
وہی جہاں ہے ترا جس کو تو کرے پیدا
یہ سنگ و خشت نہیں ، جو تری نگاہ میں ہے

مطلب: اب اگریہ کہا جائے کہ خس و خاشاک کا ڈھیر ہی حقیقی دنیا کے مترادف ہے تو اس سے بڑھ کر احمقانہ بات اور کیا ہو گی کہ ایک فعال انسان تو خود ہی اپنی دنیا تخلیق کرتا ہے اور یہ دنیا ہمت و جراَت اور عملی جدوجہد سے ہی پیدا ہوتی ہے ۔

 
مہ و ستارہ سے آگے مقام ہے جس کا
وہ مشتِ خاک ابھی آوارگانِ راہ میں ہے

معانی: مشتِ خاک: مٹی کی مٹھی ۔ آوارگانِ راہ: مسافر ۔
مطلب: اقبال کے نزدیک انسان کا مقام تو چاند ستاروں سے بھی کہیں آگے ہے ۔ اس لیے اسے اشرف المخلوقات کہا گیا ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ وہ اپنی کم ہمتی اور بے عملی کے سبب منزل مقصود پانا تو الگ رہا ابھی اس کے راستے میں ہی بھٹک رہا ہے ۔

 
خبر ملی ہے خدایانِ بحر و بر سے مجھے
فرنگ رہ گزرِ سیلِ بے پناہ میں ہے

معانی: فرنگ: انگریز ۔ بے پناہ: بہت زیادہ ۔
مطلب: علامہ نے یہ اور اس طرح کی پیشن گوئیاں اپنے اشعار میں جا بجا کی ہیں وہ اسے فکری شعور کے تحت پیش آمدہ حالات کا جائزہ لینے کی پوری پوری صلاحیت رکھتے ہیں ۔ اس شعر میں انھوں نے جنوبی ایشیا کے دوسرے ممالک پر برطانوی تہذیب و استعمار کی یلغار کا ذکر کیا ہے اور متنبہ کیا ہے کہ مغربی تہذیب و استعمار مشرق کو تباہ کرنے کے لیے برسر عمل ہے اس کا تدارک ضروری ہے ۔

 
تلاش اس کی فضاؤں میں کر نصیب اپنا
جہانِ تازہ مری آہِ صبح گاہ میں ہے

مطلب: میں نے اپنے اشعار میں جو منشور ترتیب دیا ہے وہ مسلمانوں کے لیے جہان تازہ کی تعمیر کا سبب بن سکتا ہے ۔

 
مرے کدو کو غنیمت سمجھ کہ بادہَ ناب
نہ مدرسے میں ہے باقی نہ خانقاہ میں ہے

معانی: بادہَ ناب: صاف شراب ۔
مطلب: اس میں کہا گیا ہے کہ میں نے اپنے اشعار میں جو تعلیم دی ہے وہ نا تو تعلیمی اداروں میں ملے گی اور نا ہی مذہبی درسگاہوں میں ! لہذا اسی سے استفادہ کیا جائے تو مناسب ہے ۔