ایک بحری قزاق اور سکندر
سکندر
صلہ تیرا تری زنجیر یا شمشیر ہے میری کہ تیری رہزنی سے تنگ ہے دریا کی پہنائی
معانی: صلہ: بدلہ ۔ رہزنی: ڈکیتی،لوٹ مار ۔ پہنائی: وسعت ۔
مطلب: سکندر نے ایک ایسے سمندری لٹیرے کو جس نے سمندر کی وسعتوں میں اپنی لوٹ مار سے مسافروں میں ہلچل مچا رکھی تھی گرفتا ر ہونے پر اس کے سامنے پیش کیے جانے کے وقت کہا کہ بتا تیری سزا کیا ہے ۔ کیا میں تجھے زنجیر سے باندھوں یعنی قید کر دوں یا تلوار سے تیری گردن اڑا دوں
قزّاق
سکندر! حیف تو اس کو جوانمردی سمجھتا ہے گوارا اس طرح کرتے ہیں ہم چشموں کی رسوائی
معانی: حیف: افسوس ۔ جوانمردی: بہادری ۔ گوارا کرنا: پسند کرنا، برداشت کرنا ۔
مطلب: لٹیرا جواب دیتا ہے کہ اے سکندر مجھے افسوس ہے کہ تو اپنے ہم رتبہ والوں کو یا اپنے پیشہ والوں کو ذلیل کرنا چاہتا ہے حالانکہ ہم دونوں لوٹ مار میں یکساں ہیں ۔
ترا پیشہ ہے سفاکی مرا پیشہ ہے سفاکی کہ ہم قزاق ہیں دونوں تو میدانی میں دریائی
معانی: ہم رتبہ ہیں ۔ ہم پیشہ ہیں ۔
مطلب: تیرا پیشہ بھی لوٹ مار کرنا اور خون بہانا ہے اور میرا کام بھی یہی ہے ۔ ہم دونوں لٹیرے ہیں ۔ فرق صرف یہ ہے کہ تو میدانوں میں لوٹ مار کرتا ہے اور میں سمندروں میں لوٹ مار کرتا ہوں ۔ یاد رکھیں سکندر بہت بڑا فاتح تھا اور اس نے اپنی فتوحات کے دوران بہت سے ملکوں کو لوٹا تھا اور برباد کیا تھا ۔ اور بہت سے لوگوں کا خون بہایا تھا ۔