Please wait..

اجتہاد

 
ہند میں حکمتِ دیں کوئی کہاں سے سیکھے
نہ کہیں لذّت کردار نہ افکارِ عمیق

معانی : اجتہاد: اپنی سوچ اور علم سے مسئلہ حل کرنا ۔ حکمتِ دیں : دین کا اصل عالم ۔ لذتِ کردار: کردار کا مزہ ۔ افکار عمیق: گہرا غو ر و فکر ۔
مطلب: دین اسلام میں کیا دانائی ، کیا تدبیر اور کیا فکر ہے ۔ یہ بات کوئی کہاں سے اور کس سے پوچھے کیونکہ برصغیر کے جو دینی حلقہ کے لوگ ہیں ان میں نہ تو عمل کی چاشنی ہے اور نہ ان میں کردار کی گہرائی ہے ان کا دین کے متعلق علم بھی سطحی ہے اور ان کا عمل بھی پختہ نہیں ہے ۔

 
حلقہَ شوق میں وہ جراَت اندیشہ کہاں
آہ! محکومی و تقلید و زوالِ تحقیق

معانی: حلقہَ شوق: شوق کا حلقہ یعنی علم کی مجلس ۔ جراَت اندیشہ: فکر کی جراَت: محکومی: غلامی ۔ تقلید: پیروی ۔
مطلب: اہل علم کے حلقہ سے اگر اہل شوق (عشق، تصوف، فقر) کے حلقہ میں آئیں تو یہاں بھی وہی حالت ہے ان میں بھی فکر انگیزی کی جرات نہیں ۔ دونوں حلقے (جلوت اور خلوت کے) دور غلامی کی وجہ سے اندھی پیروی میں لگے ہوئے ہیں اور تحقیق تو اس قدر روبہ زوال ہے گویا نام کو بھی نہیں ہے ۔

 
خود بدلتے نہیں ، قرآں کو بدل دیتے ہیں 
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق

معانی: فقیہانِ حرم: مفتی، علم والے لوگ ۔
مطلب: اس دور کے مسلمان علماء میں قرآن کے صحیح مفہوم کو لوگوں تک پہنچانے کی توفیق نہیں ہے ۔ وہ اس قدر بے ہمت و کم حوصلہ ہیں کہ قرآن کا اصل مفہوم بتانے کے بجائے اس کے مطلب کو بدل کر اسی کے معانی اپنی مرضی کے مطابق تاویل کر کے لوگوں تک پہنچاتے ہیں یا یوں سمجھئے اپنے مفاد اور غرض کی خاطر بجائے خود بدلنے کے قرآن کے مفہوم کو بدل دیتے ہیں ۔

 
ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب
کہ سکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق

معانی: مسلک: مذہب ۔ غلام: غلامی کرنے والا ۔
مطلب: جلوت و خلوت کے یہ دونوں گروہ خاص کر علمائے دین محکومی اور غلامی کے دور میں اس قدر بدل چکے ہیں اور غلامی سے اس حد تک مانوس ہو چکے ہیں کہ اس بنا پر وہ قرآن میں بھی یہ نقص نکال رہے ہیں کہ یہ لوگوں کو غلامی پر قناعت کرنے کی تعلیم کیوں نہیں دیتا ۔ چنانچہ بعض نے اعلاناً سرعام یہ کہہ دیا کہ اس دور میں جہاد مسلمان پر حرام ہے اور انگریزی سلطنت کے ساتھ وفاداری عین دین ہے ۔ قرآن میں اگر اجتہاد کیا بھی تو ان علمائے سو نے الٹے رخ کیا سیدھے رخ نہیں کیا ۔