مردِ مسلمان
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان، نئی آن گفتار میں ، کردار میں اللہ کی برہان
معانی: گفتار: بات چیت ۔ کردار: عمل ۔ برہان: دلیل، ثبوت ۔
مطلب: مرد مومن کی صفت یہ ہے کہ وہ ہر لمحہ ایک نئی شان ایک نئے شکوہ اور ایک نئے اکرام کی صورت میں ہوتا ہے ۔ وہ ایک جامد شے کی طرح منجمد نہیں ہوتا بلکہ ہر لمحہ ایک نئی شان کی صورت میں نمودار ہوتا ہے ۔ اس کی گفتگو سنیں یا اس کا عمل دیکھیں دونوں چیزیں اللہ تعالیٰ کی حجت ، دلیل اور نشانی ہوتی ہیں ۔ مر اد یہ ہے کہ مرد مومن کو دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ کوئی اللہ بھی ہے ۔ مرد مومن کو دیکھ کر خدا یاد آتا ہے ۔
قہاری و غفّاری و قدّوسی و جبروت یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
معانی: قہاری: قہر سے دشمن پر لرز اٹھے، سختی کرنا ۔ غفاری: خطاؤں کو معاف کرنے والا ۔ قدوسی: فرشتوں کی سی پاکیزگی ۔ جبروت: عظمت، دبدبہ ۔ عناصر: عنصر کی جمع، اجزائے ترکیبی ۔
مطلب: ایک مرد مسلمان میں چار عناصر کا ہونا ضروری ہے ۔ پہلا عنصر قہاری کا ہے یعنی اس میں ایسی ہیبت ایسی قوت ہوتی ہے کہ مخالف لرز اٹھتا ہے ۔ دوسرا عنصر غفاری کا ہے وہ دوستوں کے ساتھ حسن سلوک اور رحم کے ساتھ پیش آتا ہے او ر ان کی خطاؤں سے درگزر کرتا ہے اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب وہ دشمن پر غلبہ پا لیتا ہے تو اسے بھی معاف کر دیتا ہے ۔ تیسرا عنصر قدوسی ہوتا ہے اس کی سیرت میں ، اس کے عمل میں اس کی گفتار میں اور اس کی حرکات و سکنات میں فرشتوں جیسی پاکیزگی ہوتی ہے اور چوتھا عنصر اس میں جبروتی کا ہوتا ہے ۔ یعنی عظمت ، جلال اور شکوہ میں سب پر فوقیت رکھتا ہے ۔ ایک شخص ایمان تو اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر لا سکتا ہے لیکن عملاً وہ مسلمان اور مومن اس وقت بنتا ہے جب اس میں مذکورہ بالا چار عناصر جمع ہوں ۔
ہمسایہَ جبریلِ امیں بندہَ خاکی ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ بدخشان
معانی: ا میں : امانت دار ۔ بندہ خاکی: مٹی کا بنا ہوا آدمی ۔ بخارا نہ بدخشاں : بخارا اور بدخشاں دو شہر ۔
مطلب: دوسرے آدم کے بیٹوں ، بیٹیوں کی طرح مسلمان بھی مٹی کا بنا ہوا ہوتا ہے ۔ اس کا جسم بھی خاکی ہی ہوتا ہے لیکن اس کی سرشت اور نہاد نورانی ہوتی ہے ۔ وہ اپنے باطن کی صفائی اور پاکیزگی کی وجہ سے جبریل امین کا ہمسایہ ہوتا ہے ۔ اسے نسلی وطنیت سے کوئی سروکار نہیں ہوتا وہ خود کو بدخشانی یا بخاری وطنیت کی حدوں میں محدود نہیں کرتا ۔ یعنی اپنی قومیت کی بنیاد جغرافیائی وطنیت پر نہیں رکھتا بلکہ ایمانی اور روحانی وطنیت پر رکھتا ہے ۔
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
مطلب: دنیا والے بہت کم ایسے ہوتے ہوں گے جو اس بھید کو جانتے ہوں گے کہ مومن بظاہر تو قرآن پڑھتا ہوا نظر آتا ہے لیکن حقیقت میں وہ خود قرآن ہوتا ہے ۔ کیونکہ وہ کتاب صرف پڑھتا نہیں بلکہ اس کی آیات پر عمل کر کے سچا کردار بن جاتا ہے اس طرح وہ خود چلتا پھرتا قرآن بن جاتا ہے ۔
قدرت کے مقاصد کا عیار اس کے ارادے دنیا میں بھی میزان، قیامت میں بھی میزان
معانی: عیار: کسوٹی ۔ میزان: ترازو، تولنے کا آلہ ۔
مطلب: مومن کے ارادے (چاہے گفتاری اور فکری ہوں اور چاہے عملی و کرداری ہوں ) قدرت کی کسوٹی پر پورے اترتے ہیں یعنی مومن وہ کچھ کہتا اور کرتا ہے جو قدرت چاہتی ہے یا خدا چاہتا ہے ۔ اس لیے دنیا ہو یا قیامت دونوں جگہ نیکی اور بدی کو مومن کے اعمال و گفتار کے ترازو پر پرکھا جائے گا ۔ دنیا میں وہی کچھ نیک ہے جو مومن کے ارادے میں نیک ہے اور وہی کچھ بد ہے جو اس کے ارادے میں بد ہے ۔ قیامت کے روز اعمال اسی کسوٹی پر پرکھے جائیں گے اور اسی ترازو میں تولے جائیں گے ۔
جس سے جگرِ لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان
معانی: جگرِ لالہ میں ٹھنڈک: نوجوانوں میں تازگی کا باعث ۔ دہل جائیں : ڈر جائیں ۔
مطلب: مرد مسلمان وہ ہے جو سوختہ دلوں اور جلے ہوئے جگر والوں کے لیے یعنی مصیبت زدوں اور دکھیوں کے لیے ایک ایسی ہی ٹھنڈک بنتا ہے جیسی کہ لالہ کے سوختہ جگر کو صبح کی شبنم ٹھنڈک پہنچاتی ہے ۔ اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ مومن اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے رحم دل اور نرم دل ہوتا ہے اس کے برعکس اگر دشمن مقابلے میں ہو تو وہ اس طوفان کی طرح ہوتا ہے جس سے دریاؤں کے دل بھی کانپ اٹھیں ۔ مراد یہ ہے کہ وہ دشمنوں سے اپنے پورے قہر، جبروت اور طاقت سے نپٹتا ہے،
فطرت کا سرودِ ازلی اس کے شب و روز آہنگ میں یکتا صفتِ سُورہَ رحمٰن
معانی: سرودِ ازلی: ہمیشہ کا نغمہ ۔ آہنگ: سُر، آواز ۔
مطلب: مومن کے دن اور رات اس طرح گزرتے ہیں کہ جیسے ان میں فطرت کا ہمیشہ سرور ہو ۔ اس کی زندگی کے نغمات فطرت کے ساز کے مطابق ہوتے ہیں اور ان میں ایک ازلی قسم کی کیفیاتی خوشی ہوتی ہے ۔ ان نغموں کی ہم آہنگی یا ہم آوازی قرآن کی سورۃ رحمٰن کی طرح ہے جس کی آیتیں دوسری قرآنی سورتوں کے مقابلے میں زیادہ ہم آواز ، ہم آہنگ اور ردم میں ہیں ۔ جس طرح قرآن میں سورۃ رحمٰن اپنی اس صفت کے اعتبار سے واحد اور بے مثل سورۃ ہے اسی طرح مسلمان بھی قدرت کی منشا کی ہم آوازی کے لحاظ سے جملہ انسانوں میں منفرد ، واحد اور بے مثل ہوتا ہے ۔
بنتے ہیں مری کارگہِ فکر میں انجم لے اپنے مقدر کے ستارے کو تو پہچان
معانی: کارگہِ فکر: تخیل، سوچ کا کارخانہ ۔ انجم: ستارے ۔
مطلب: آخر میں اقبال کہتے ہیں کہ اے میرے بندہ مومن میری شاعری کو شاعری نہ سمجھ بلکہ یوں سمجھ کہ یہ ایسا کارخانہ ہے جس میں فکر و عمل کے اور تیری قسمت کے ستارے بنتے ہیں ۔ دانش مندی یہ ہو گی کہ تو اپنے مقدر کے ان ستاروں کو پہچان ۔ مراد ہے میری شاعری کے حقائق و معارف سے جو مقدر بدلنے والے ستاروں کی طرح ہیں فائدہ اٹھا ۔ میری شاعری کو محض اچھے شعر سمجھ کر پڑھتا ہوا نہ نکل جا ۔