Please wait..

پیام

 
عشق نے کر دیا تجھے ذوقِ تپش سے آشنا
بزم کو مثلِ شمعِ بزم حاصلِ سوز و ساز دے

معانی: ذوقِ تپش: تڑپ، بیقراری کا شوق ۔ آشنا: واقف ۔ مثل: مانند، طرح ۔ حاصل سوز و ساز: عشق حقیقی میں پید ا ہونے والے جذبے ۔
مطلب: اقبال اس نظم کا آغاز اس طرح کرتے ہیں کہ اے ہم نشیں ! عشق نے تجھے سوز سے نوازا ہے لیکن تیری انفرادیت یہ ہونی چاہیے شمع محفل کی طرح اپنے عہد کو روشنی عطا کر ۔ مراد یہ کہ سوز عشق میں خود مبتلا ہونا کافی نہیں بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کیفیت سے دوسرے بھی استفادہ کر سکیں ۔

 
شانِ کرم پہ ہے مدار عشقِ گرہ کشائے کا
دیر و حرم کی قید کیا ، جس کو وہ بے نیاز دے

معانی: شانِ کرم: مہربانی، بخشش کا انداز ۔ مدار: انحصار ۔ عشق گرہ کشائے: مشکلیں حل کرنے والا عشق ۔ دیر و حرم: مراد مختلف مذاہب ۔ قید: پابندی ۔ وہ بے نیاز: مراد خدا تعالیٰ ۔
مطلب: عشق کو اگر مشکلات کا حل تصور کر لیا جائے تو یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ دولت رحمت خداوندی کی دین ہے ۔ اس ضمن میں دیر و حرم کی پابندی نہیں بلکہ اسے تو وہی بے نیاز عطا کر تا ہے ۔

 
صورتِ شمعِ نور کی ملتی نہیں قبا اسے
جس کو خدا نہ دہر میں گریہَ جاں گداز دے

معانی: شمع: موم بتی کی طرح ۔ قبا: آگے سے کھلا ہوا لمبا کوٹ ۔ دہر: زمانہ ۔ گریہَ جاں گداز: روح کو پگھلانے ، بیحد متاثر کرنے والا رونا ۔
مطلب: شمع کو اگر شعلے کی صورت میں نور کا لباس ملا ہے تو اس کی وجہ شمع کا جلنا ہے ۔ مراد یہ ہے کہ کوئی بھی بلند مرتبہ تکلیف اٹھائے بغیر حاصل نہیں ہوتا ۔

 
تارے میں وہ ، قمر میں وہ، جلوہ گہِ سحر میں وہ
چشمِ نظارہ میں نہ تو سرمہَ امتیاز دے

معانی: جلوہ گہِ سحر: صبح کی تجلی کی جگہ، مراد صبح ۔ چشمِ نظارہ: دیکھنے والی آنکھ ۔ سرمہَ امتیاز: دو یا زیادہ چیزوں میں فرق کرنے والا سرمہ ۔
مطلب: ستارے، چاند اور طلوع سحر میں رب ذوالجلال کا جلوہ موجود ہے اس کے لیے کسی امتیاز کی ضرورت نہیں ۔ دیکھنے والے کو اپنے رویے میں توازن پیدا کرنا چاہیے ۔

 
عشق بلند بال ہے رسم و رہِ نیاز سے
حُسن ہے مستِ ناز اگر تو بھی جوابِ ناز دے

معانی: بلند بال ہونا: مراد بہت دور، بلند ہونا ۔ رسم و رہِ نیاز: عاجزی کے طور طریقے ۔ مست ناز: اپنی اداؤں میں مگن ۔ جواب ناز دینا: مراد حسن والا ناز ہی اختیار کرنا ۔
مطلب: عشق انسان کو عاجزی اور انکساری نہیں سکھاتا چنانچہ اگر حسن ناز و انداز، فخر و غرور کا حامل ہے تو اس کا جواب بھی اسی کے اندا ز میں دے ۔

 
پیرِ مغاں فرنگ کی مے کا نشاط ہے اثر
اس میں وہ کیفِ غم نہیں ، مجھ کو تو خانہ ساز دے

معانی: پیرِ مغاں : آتش پرستوں کا پیشوا، شراب بیچنے والا ۔ مے: شراب، مراد زندگی گزارنے کے طریقے ۔ نشاط: خوشی، مسرت ۔ کیفِ غم: غم کا خمار ۔ خانہ ساز: مراد دیسی شراب یعنی اپنے یہاں کی اسلامی معاشرت اور علوم ۔
مطلب: اے ساقی! یہ تسلیم کہ انگریزی تہذیب مظاہر مسرت و انبساط عطا کرتی ہے لیکن یہ امر ضروری ہے کہ اب اپنی قومی تہذیب سے آشنا کر ۔

 
تجھ کو خبر نہیں ہے کیا! بزمِ کہن بدل گئی
اب نہ خدا کے واسطے ان کو مئے مجاز دے

معانی: بزم کہن: پرانی محفل ۔ مے مجاز: مراد دنیاوی شراب یعنی صرف دنیا ہی سے تعلق جسے ماسوا اللہ کہتے ہیں ۔
مطلب: اے ساقی تجھ کو شاید اس امر کا ادراک نہیں کہ قدیم تہذیب بڑی حد تک تبدیل ہو چکی ہے لہذا ہمیں ظاہری باتوں کی بجائے جملہ حقائق سے پوری طرح آشنا کر دے ۔