Please wait..

(14)

 
دلِ بیدار فاروقی، دلِ بیدار کرّاری
مسِ آدم کے حق میں کیمیا ہے دل کی بیداری

معانی: دل بیدار: جاگتا ہوا دل ۔ فاروقی: حضرت عمر فاروق جیسا ۔ کراری: حضرت علی حیدرِ کرار جیسا ۔ مَس: چاندی ۔ کیمیا: سونا بنانے والی چیز ۔ بیداری: جاگناہ ۔
مطلب:اقبال کے نزدیک جس انسان کا دل بیدار ہو جائے اور شعور ذات پیدا ہو جائے اس میں حضرت عمر فاروق اور حضرت علی حیدر کرار جیسے اوصاف و خصوصیات پیدا ہو جاتی ہیں ۔ مزید یہ کہ دل کی بیداری انسان کے لیے ایسی ہی شے ہے جیسی کہ تانبے کے لیے کیمیا جو تانبے کو سونا بنانے کی اہلیت رکھتی ہے ۔ مراد یہ کہ دل کی بیداری شعور ذات اور مکمل ذات کی حامل ہوتی ہے ۔

 
دلِ بیدار پیدا کر کہ دل خوابیدہ ہے جب تک
نہ تیری ضرب ہے کاری، نہ میری ضرب ہے کاری

معانی: خوابیدہ: سویا ہوا ۔ ضرب: چوٹ ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال پہلے شعر کے حوالے سے مسلمان سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ جب تک دل بیدار نہیں ہوتا اور خوابیدہ ہے یہ سمجھ لے کہ دشمن کے خلاف نہ تیرا وار کارگر ہو گا نہ میرا وار کارگر ہو سکے گا ۔ اس لیے تو دل کی بیداری شرط اول ہے ۔

 
مشامِ تیز سے ملتا ہے صحرا میں نشاں اس کا
ظن و تخمیں سے ہاتھ آتا نہیں آہوئے تاتاری

معانی: ظن و تخمین: اندازہ ۔ آہوے تاتاری: تاتار(ترکستان) کا ہرن ۔
مطلب: منزل مراد تک پہنچنے کے لیے مقصد اسی وقت حاصل ہو سکتا ہے کہ انسان متوقع صورت حال کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو ۔ محض اندازوں سے بات بننا مشکل ہے ۔

 
اس اندیشے سے ضبطِ آہ میں کرتا رہوں کب تک
کہ مُغ زادے نہ لے جائیں تری قسمت کی چنگاری

معانی: اندیشے: ڈر ۔ ضبطِ آہ: آہ کو روکنا ۔ مُغ زادے: شراب بنانے والوں کی اولاد یعنی انگریز ۔
مطلب: میں اب تک جو اظہار حقیقت نہ کر سکا تو اس کی وجہ محض یہ خدشہ تھا کہ میرے افکار سے کہیں غیر مسلم استفادہ نہ کر لیں ۔ جب کہ اپنے عہد کے مسلمانوں کی بے حسی کا تو پہلے سے ہی مجھے اندازہ ہے تاہم میرے لیے اب یہ ممکن نہیں رہا کہ اسی خدشے کی بنا پر اظہار حقیقت سے مسلسل گریز کرتا رہوں ۔

 
خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیّاری ہے سلطانی بھی عیّاری

معانی: عیّاری: چالاکی ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال خداوند عزوجل سے مخاطب ہو کر استفسار کرتے ہیں کہ اے مالک حقیقی آج کے عہد میں تو درویشی بھی عیاری سے پاک نہیں اور بادشاہت بھی عیاری کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اس صورت میں ہم جیسے سادہ دل انسانوں کا گزر کیسے ہو ۔ مراد یہ ہے کہ درویش بھی اپنے حقیقی فراءض سے غافل ہیں اور بادشاہ بھی اپنے منصب کا احترام نہیں کر رہے ۔

 
مجھے تہذیب حاضر نے عطا کی ہے وہ آزادی
کہ ظاہر میں تو آزادی، باطن میں گرفتاری

معانی: تہذیبِ حاضر: جدید یورپ کی زندگی گزارنے کا طریقہ ۔ گرفتاری: غلامی ۔
مطلب: اس ساری صورت حال میں ایک بات واضح ہے کہ تہذیب حاضر نے بے شک انسان کو آزادی تو عطا کر دی ہے لیکن بغور جائزہ لیا جائے تو یہ آزادی عملاً غلامی سے بھی بدتر ہے ۔

 
تو اے مولائے یثرب آپ میری چارہ سازی کر
مری دانش ہے افرنگی، مرا ایماں ہے زُناری

معانی: دانش: عقل ۔ افرنگی: انگریزی ۔ زنّاری:ہندوانہ ۔
مطلب: اس سارے پس منظر کے حوالے سے اقبال ایک طرح مایوسی کی حالت میں خداوند تعالیٰ کے روبرو عرض پرداز ہیں کہ میری سوچ تو انگریزی تہذیب و دانش سے مستعار ہے اور جہاں تک عقائد کا تعلق ہے ان پر بھی غیر مسلم کے کلچر کا سایہ ہے ۔ اس لیے اے باری تعالیٰ تو ہی مدد کر کہ میں سچائی کی راہ پر گامزن ہو سکوں ۔