غزل۔1
زندگی انساں کی اک دم کے سوا کچھ بھی نہیں دم ہوا کی موج ہے رم کے سوا کچھ بھی نہیں
مطلب: کائنات میں حیات انسانی دیکھا جائے تو ایک سانس کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے۔ وہ کسی لمحے بھی اس جہان فانی سے رخصت ہو سکتا ہے۔ پھر یہ سانس بھی کیا ہے محض ہوا کی ایک لہر کے مانند ہے جو ہمیشہ رواں دواں رہتی ہے کبھی ایک سمت میں اور کبھی دوسری سمت میں سرگرم رہتی ہے۔ اس لیے یہ کہنا درست ہو گا کہ دنیا میں انسان کی زندگی ناپائیدار ہوتی ہے۔
گل تبسم کہہ رہا تھا زندگانی کو مگر شمع بولی گریہ غم کے سوا کچھ بھی نہیں
مطلب: پھول کے نزدیک زندگی محض مسکرانے کا دوسرا نام ہے۔ جب کہ شمع کے نزدیک اس کی حیثیت غم و اندوہ کے علاوہ اور کچھ نہیںَ
راز ہستی راز ہے جب تک کوئی محرم نہ ہو کھل گیا جس دم تو محرم کے سوا کچھ بھی نہیں
مطلب: زندگی اس وقت ایک راز کی حیثیت رکھتی ہے جب تک کہ اس کے رازہائے درون سے کوئی آگاہی حاصل نہ کر لے لیکن جب اس پر یہ راز منکشف ہو جائیں تو پھر اصل حقیقت اس محرام راز کی بھی ہوتی ہے۔ اس لیے کہ راز منکشف ہونے کے بعد اپنی اہمیت کھو دیتے ہیں۔
زائران کعبہ سے اقبال یہ پوچھے کوئی کیا حرم کا تحفہ زمزم کے سوا کچھ بھی نہیں؟
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ جو لوگ حج یا عمرے کے لیے کعبہ تک رسائی حاصل کرتے ہیں اور وطن واپسی پر بڑے فخر سے ہمراہ آب زمزم لاتے ہیں اور دوستوں اور عزیزوں میں تقسیم ایسے کرتے ہیں جیسا کہ یہاں اس سے بڑا تحفہ نہ تھا حالانکہ وہاں سے لانے کے لیے تو حرارت ایمانی سے بڑھ کر دوسرا تحفہ نہیں ہو سکتا۔