غزل
چمک تیری عیاں بجلی میں آتش میں شرارے میں جھلک تیری ہویدا چاند میں سورج میں تارے میں
معانی: ہویدا: ظاہر۔
مطلب: مطلع میں کہا گیا ہے کہ اے باری تعالیٰ تیرا جلوہ بجلی، آگ اور اس کے شعلے میں پنہاں ہے۔ اس کے علاوہ چاند ، سورج اور ستاروں میں بھی تیری جھلک نمایاں ہوتی ہے۔
بلندی آسمانوں میں زمینوں میں تری پستی روانی بحر میں افتادگی تیری کنارے میں
مطلب: آسمانوں کی بلندی اور زمین کی پستی بھی تیرے سبب ہی ہے۔ سمندروں کی موجوں میں روانی اور ساحل کا ایک ہی مقام پر قیام تیرے ہی دم سے ہے۔
شریعت کیوں گریباں گیر ہو ذوق تکلم کی چھپا جاتا ہوں اپنے دل کا مطلب استعارے میں
مطلب: میرے مکالمے اور تخلیقی عمل پر اہل شریعت یعنی واعظ و ملا چونکہ معترض ہوتے ہیں اسی لیے میں اپنے دل جذبات کا اظہار اب تشبیہات اور استعاروں میں کرنے لگا ہوں۔ ظاہر ہے کہ میرا یہ طرز عمل ان لوگوں کے لیے نارسا ہوتا ہے اس لیے وہ خامشی اختیار کر جاتے ہیں۔
جو ہے بیدار انساں میں وہ گہری نیند سوتا ہے شجر میں پھول میں حیواں میں پتھر میں ستارے میں
مطلب: میں اس حقیقت سے بھی بخوبی آگاہ ہوں کہ درخت، پھول عام انسان، پتھر اور ستاروں میں وہ صلاحیت اور کیفیت موجود نہیں جو انسان میں ہے۔ یعنی اول الذکر اشیاء ہر چند کہ ایک سی حقیقت کی حامل ہیں۔ اس کے باوجود ان میں حیات کے حوالے سے وہ شعور نہیں ہے جو کہ انسان میں موجود ہے۔
مجھے پھونکا ہے سوز قطرہ اشک محبت نے غضب کی آگ تھی پانی کے چھوٹے سے شرارے میں
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ مجھے تو محبت کی آگ نے جلا کر خاک کر ڈالا ہے۔ ہر چند کہ محبت کا جذبہ ایک ننھی سی چنگاری کے مانند ہے۔ اس کے باوجود یہ چنگاری تو انسان کو جلا کر رکھ دیتی ہے۔
نہیں جنس ثواب آخرت کی آرزو مجھ کو وہ سوداگر ہوں میں نے نفع دیکھا ہے خسارے میں
مطلب: میں اس دنیا میں باری تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے جو نیکیاں کما رہا ہوں آخرت میں ان کا صلہ پانے کی تمنا بھی مجھ کو نہیں ہے ۔ اس لیے کہ میں تو ایسا سوداگر ہوں جو بالعموم نفع نقصان سے بے نیاز رہتا ہے۔
سکون نا آشنا رہنا اسے سامان ہستی ہے تڑپ کس دل کی یارب چھپ کے آ بیٹھی ہے پارے میں
مطلب: خدایا مجھے اتنا بتا دے کہ پارہ جو اپنی فطرت کے تقاضے کے تحت ہر لمحے متحرک رہتا ہے اور اس میں ٹھہراؤ نہیں ہے اس میں تو نے کس دل کی تڑپ اور اضطراب بھر دیا ہے۔ مراد یہ کہ عشق محبوب میں جس طرح دل تڑپتا رہتا ہے یہی کیفیت پارے کی بھی ہے۔ نہ جانے وہ کس کے فراق میں اس طرح مضطرب رہتا ہے۔
صدائے لن ترانی سن کے اے اقبال میں چپ ہوں تقاضوں کی کہاں طاقت ہے مجھ فرقت کے مارے میں
مطلب: جس طرح حضرت موسیٰ کلیم اللہ کو رب ارنی یعنی اے خدا مجھے اپنا جلوہ دکھا دے تو جوا ملا تھا لن ترانی موسیٰ تم ہمارا جلوہ دیکھنے کی تاب نہیں لا سکتے ۔ اسی طرح لن ترانی کے الفاظ سن کر میں خاموش ہوں۔ اس لیے کہ مجھے تو باری تعالیٰ کے ہجر و فراق نے اس قدر مضمحل کر کے رکھ دیا ہے کہ اپنے محبوب سے قطعی تقاضا نہیں کر سکتا کہ وہ مجھے اپنا جلوہ دکھا دے۔