غزل
یوں تو اے بزم جہاں، دلکش تھے ہنگامے ترے اک ذرا افسردگی تیرے تماشاؤں میں تھی
مطلب: اے جہان رنگ و بو ہر چند کہ تیری فضا ہنگامہ خیزی اور عیش و مسرت سے بھرپور تھی لیکن اس کا کیا کیا جاءے کہ ان ہنگاموں میں غم و اندوہ بھی کسی حد تک شامل تھے۔ یہ صورت حال بلاشک و شبہ اس امر کی دلیل ہے کہ یہ دنیا ناپاءیدار ہے۔ مسرتوں کے ساتھ یہاں غم و اندوہ بھی موجود رہتے ہیں۔
پا گئی آسودگی کوئے محبت میں وہ خاک مدتوں آوارہ جو حکمت کے صحراؤں میں تھی
مطلب: جو شخص حکمت و دانش کے صحراؤں میں پریشان و مضطرب رہا اور اس صحرا کی خاک چھانتا رہا بالاخر اسے محبت کے دامن میں مسرت و خوشی اور عملاً آسودگی دستیاب ہو گئی۔
کس قدر اے مے تجھے رسم حجاب آئی پسند پردہ انگور سے نکلی تو میناؤں میں تھی
مطلب: اس شعر میں اقبال شراب کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ شراب عملی سطح پر ایک پردہ نشین شے ہے کہ اولاً انگور کے خوشوں میں چھپی رہتی ہے۔ بعد میں پیمانے اور صراحیوں کے دامن میں پناہ گزین ہو جاتی ہے۔
حسن کی تاثیر پر غالب نہ آ سکتا تھا علم اتنی نادانی جہاں کے سارے داناؤں میں تھی
مطلب: یہ درست ہے کہ حسن کے ساتھ علم و دانش بھی اپنی اپنی انفرادیت رکھتے ہیں لیکن حسن میں وہ تاثیر موجود ہے جس پر علم و دانش غالب نہیں آ سکتے بلکہ ایک طرح سے اس کے زیر اثر رہتے ہیں اور اسی باعث دنیا بھر کے دانشور حسن کے مقابل نادانی سے ہم آہنگ نظر آتے ہیں۔
میں نے اے اقبال یورپ میں اسے ڈھونڈا عبث بات جو ہندوستاں کے ماہ سیماؤں میں تھی
مطلب: مقطع میں اقبال کہتے ہیں کہ یورپ کے دوران قیام وہ حسن اور تہذیب تلاش کرتا رہا جو ہندوستان کے خوبصورت اور خوب سیرت لوگوں میں موجود ہے۔