Please wait..

مارچ 1907 ء

 
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار یار ہوگا 
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہوگا 

مطلب: وہ زمانہ آنے والا ہے جب یار کا دیدار عام ہو گا جو راز خاموشی کے پردہ میں تھا وہ اب آشکار ہو جائے گا۔

 
گزر گیا اب وہ دور ساقی کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے 
بنے گا سارا جہان مے خانہ ہر کوئی بادہ خوار ہوگا 

مطلب: اب وہ عہد ختم ہونے کو ہے کہ جس میں عاشق شراب عشق چھپ کر پیتے تھے اب تو وہ وقت آنے والا ہے کہ ہر کوئی عشق الہی کے طفیل بادہ خوار ہو گا اور سارا جہان مے خانہ بن جائے گا۔

 
کبھی جو آوارۂ جنوں تھے وہ بستیوں میں پھر آ بسیں گے 
برہنہ پائی وہی رہے گی مگر نیا خار زار ہوگا 

مطلب: وہ لوگ جو عشق و مستی کے عالم میں صحراؤں اور جنگلوں کی خاک چھان رہے تھے وہ پھر سے بستیوں میں آ بسیں گے۔ ہر چند کہ وہ صحراؤں اور جنگلوں میں برہنہ پا تھے۔ یہاں بھی ان کی صورت حال وہی رہے۔ فرق اس قدر ہے کہ یہ بستیاں ایک نئے خاردار کے مانند ہوں گی۔

 
سنا دیا گوش منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر 
جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا پھر استوار ہوگا 

مطلب: حق تعالیٰ نے تم لوگوں کی بہبود و آرائش اور ارتقاء کے لیے جو وعدے حجاز کی سرزمین میں کیے گئے تھے بلاشک و شبہ ان کی پذیرائی کی جائے گی۔

 
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا 
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا 

مطلب: وہ فرزندان توحید جنھوں نے اپنی جراءت اور آہنی عزم کے ذریعے روم کی عظیم الشان سلطنت کو تہہ و بالا کر دیا تھا فرشتوں کی زبانی مجھے یہ پیغام دیا گیا ہے کہ وہ فرزندان توحید ایکبار پھر اپنی منتشر صفوں کو استوار کر کے دشمن کا منہ پھیر دیں گے۔

 
کیا مرا تذکرہ جو ساقی نے بادہ خواروں کی انجمن میں 
تو پیر مے خانہ سن کے کہنے لگا کہ منہ پھٹ ہے خار ہوگا 

مطلب: میرا راست گوءی کا چرچا جب لوگوں میں ہوا تو ان کے سربراہ نے کہا کہ ایسے منہ پھٹ لوگ اکثر خراب و خستہ ہی ہوا کرتے ہیں۔ سو اس شخص کا حشر بھی کچھ اسی طرح کا ہو گا۔

 
دیار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے 
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زر کم عیار ہوگا 

مطلب: اقبال مغربی استعماروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ دنیا رب ذوالجلال نے پیدا کی ہے جب کہ تم اسے اپنے مفادات کی منڈی سمجھ بیٹھے ہو ۔ اور جس سکے کو تم کھرا سمجھ رہے ہو ذرا غور سے دیکھو تو وہ کھوٹا سکہ ہے ۔

 
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی 
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا 

مطلب: اور یہ بھی جان لو کہ تمہاری وضع کردہ تہذیب ان ہتھیاروں سے خود ہی اپنے آپ کو تباہ کر لے گی جو تم نے دوسروں کو برباد کرنے کے لیے ایجاد کیے ہیں۔ جان لو کہ جس عمارت کی بنیاد کمزور ہو گی تو وہ عمارت بھی یقینا ناپائیدار ہو گی۔

 
سفینۂ برگ گل بنا لے گا قافلہ مور ناتواں کا 
ہزار موجوں کی ہو کشاکش مگر یہ دریا سے پار ہوگا 

معانی: سفینہ برگ گل: پھول کی پتی کو کشتی بنا لے۔ مور ناتواں: کمزور چیونٹیاں۔
مطلب: جس طرح ننھی ننھی چیونٹیاں باہمی رفاقت کے ذریعے اپنی منزل تک جا پہنچتی ہیں اسی طرح سے مسلمان اتحاد و یگانگت پیدا کر کے معمولی سازوسامان کے ساتھ طاقتور دشمن کے خلاف نبرد آزما ہونے کی صلاحیت حاصل کر لیں گے۔

 
چمن میں لالہ دکھاتا پھرتا ہے داغ اپنا کلی کلی کو 
یہ جانتا ہے کہ اس دکھاوے سے دل جلوں میں شمار ہوگا 

مطلب: مراد یہ ہے کہ جھوٹے رہنما عوام کے خیر خواہ بن کر پوری قوم کو دھوکہ دے رہے ہیںَ

 
جو ایک تھا اے نگاہ تو نے ہزار کر کے ہمیں دکھایا 
یہی اگر کیفیت ہے تیری تو پھر کسے اعتبار ہوگا 

مطلب: فلسسفہ وحدت الوجود کے حوالے سے کائنات اور اس کے تمام مظاہر کی بنیاد صرف رب ذوالجلال ہے اس فلسفے کے ہمنوا ہونے کے ناطے اقبال کہتے ہیں کہ اہل دنیا نے تو خدا کے وجود کو بھی کئی ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا ہے اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو خدا پر کون یقین کرے گا۔

 
کہا جو قمری سے میں نے اک دن یہاں کے آزاد پا بہ گل ہیں 
تو غنچے کہنے لگے ہمارے چمن کا یہ رازدار ہوگا 

مطلب: اقبال قمری سے مخاطب ہوتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے جب قمری کو اس رمز سے آشنا کیا کہ کائنات کے تمام مظاہر جو آزاد تصور کیے جاتے ہیں اس آزادی کے باوصف مقید ہیں تو جو عناصر اس مکالمے کی سن گن رہے لے رہے تھے بول اٹھے کہ یہ شخص یقیناً ہمارے تمام رازہاءے درون پردہ سے آگاہ معلوم ہوتا ہے۔

 
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے 
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا 

خدا کے ہزاروں ایسے لوگ عاشق ہیں جو اس سے لو لگائے جنگلوں میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ انھوں نے باقی دنیا سے قطع تعلق کر لیا ہے۔ اقبال کے نزدیک یہ طرز عمل نہ عشق الٰہی ہے نہ ہی حقوق العباد کے اصول سے ہم آہنگ ہے۔ میں تو خدا تک رسائی کے لیے خدا کے نیک اور پارسا بندے سے عشق کا قائل ہوں جو خدا کے بندوں سے مٰحبت کرتا ہے۔

 
یہ رسم برہم فنا ہے اے دل گناہ ہے جنبش نظر بھی 
رہے گی کیا آبرو ہماری جو تو یہاں بے قرار ہوگا 

مطلب: زندگی میں تمام مصاءب کو کوءی شکوہ کے بغیر خندہ پیشانی سے قبول کر لینا چاہیے۔ اگر ان پر بے چینی اور اضطراب کا مظاہرہ کیا جائے تو یہ حوصلہ مندی اور بلندی ہمتی کی توہین ہے۔

 
میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو 
شرر فشاں ہوگی آہ میری نفس مرا شعلہ بار ہوگا 

مطلب: ہر چند کی میرا قافلہ منزل سے بھٹک گیا ہے لیکن اس تھکے ہوئے قافلے کو رستے کی تمام مشکلات کے باوجود اپنے ہمراہ لے کر منزل کی جانب عازم سفر ہوں گا۔ تاریک شب میں روشنی کے لیے میری آہیں چنگاریاں برسائیں گی اور میری ہر سانس شعلے اگلے گی۔ مراد یہ ہے کہ قوم راہ سے بھٹک چکی ہے۔ منزل کا کچھ اتاپتہ نہیں اس صورت میں اقبال کہتے ہیں کہ میں عزم و حوصلے کے ساتھ اس کی جانب منزل کی رہنمائی کروں گا۔

 
نہیں ہے غیر از نمود کچھ بھی جو مدعا تیری زندگی کا 
تو اک نفس میں جہاں سے مٹنا تجھے مثال شرار ہوگا 

مطلب: اگر اس دنیا میں تیری تخؒلیق کا مقصد زندگی کرنے اور نمود و نمائش کے سوا اور کچھ نہیں تو یہ بھی جان لے کہ جس طرح ایک شعلہ لمحے کے لیے پھڑکتا ہے اور پھر بجھ جاتا ہے ۔ اسی طرح تیری موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ مقصد یہ کہ دنیا میں حقیقی نمود و نمائش محض حدمت سے ہی حاصل ہوتی ہے۔

 
نہ پوچھ اقبالؔ کا ٹھکانہ ابھی وہی کیفیت ہے اس کی 
کہیں سر رہ گزار بیٹھا ستم کش انتظار ہوگا 

مطلب: غزل کے مقطع میں اقبال کہتے ہیں کہ میرا ٹھکانا کیا پوچھتے ہو۔ میری کیفیت پہلے کی مانند ہی ہے راہ گزر پہ بیٹھا اپنے محبوب کا انتظار کر رہا ہوں گا