جواب (پہلا بند)
سہ پہلو این جہان چون و چند است خرد کیف و کم او را کمند است
مطلب: یہ کتنا اور کیسا کا جہان تین پہلو ہے ۔ اس کے کیف و کم کے لیے عقل ایک کمند کی مانند ہے ۔ اس دنیا میں فائدہ اور نقصان کے بارے میں لوگ بلاوجہ ہی سوچتے ہیں ۔ اس جہانِ محسوس کے تین پہلو ہیں ۔ طول، عرض اور گہرائی ۔ عقل ایسے جہان کے بارے میں بخوبی سوچ سکتی ہے ۔
جہان طوسی و اقلیدس است این پے عقل زمیں فرسا بس است این
مطلب: یہ طوسی (نصیر الدین طوسی، چنگیز خان کے دربار میں وزیر، محقق،فلسفی، ماہر نجوم، ریاضی دان، اور ہیت و ہندسہ کا عالم) اور اقلیدس (قدیم زمانے کا ہیت دان، ماہر ہندسہ و ریاضی) کا جہان ہے ۔ یہ دونوں عقلی علوم میں مہارت رکھتے تھے ۔
زمانش ہم مکانش اعتباری است زمین و آسمانش اعتباری است
مطلب: اس جہان کے زما ن و مکان فرض ہیں ۔ اور اس کے زمین وآسمان بھی فرض ہیں ۔ (یہ جہان اور اس کی اشیاء حقیقی نہیں ہیں ۔ کیونکہ یہ اپنے موجود ہونے میں اللہ کے وجود کی محتاج ہیں ۔ از خود موجود نہیں ہیں ) ۔
کمان را زہ کن و آماج دریاب ز حرفم نکتہ معراج دریاب
مطلب: کمان میں تیر رکھ اور اپنا نشانہ پہچان لے ۔ اور میری اس بات سے (معراجِ مصطفی ) کی باریک رمز سمجھ لے (اگر تم زمان و زبان کو ایک کمان کی طرح مسخر کر لو تو سمجھ لو کہ تم نے اپنے درست نشانے پر تیر پہنچانے کا طریقہ دریافت کر لیا ۔ یعنی تم نے اپنی پوشیدہ قوتوں کو جان لیا ۔ اور اسی بات سے تم واقعہ معراج کی حقیقت پا سکو گے اور تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ کس طرح پلک جھپکنے میں زمان و مکان کا فاصلہ طے ہوتا ہے ۔ اگر تم یہ کیفیت پانا چاہتے ہو تو دنیاوی علوم سے آزاد ہو کر پا سکتے ہو)
مجو مطلق دریں دیر مکافات کہ مطلق نیست جز نور السموٰات
مطلب: تو مطلق کو جو کہ صرف اللہ تعالیٰ کا وجود ہے اس مکافات عمل کے جہان میں تلاش نہ کر، کیونکہ مطلق آسمانوں کے نور کے سوا کچھ نہیں ۔ (اس نور کو ظاہر جہان میں نہیں دیکھا جا سکتا ۔ وہ تو صرف باطنی جہان میں ہی نظر آئے گا) ۔
حقیقت لازوال و لامکان است مگو دیگر کہ عالم بیکران است
مطلب: حقیقت کو نہ زوال ہے اور نہ ہی اس کا کوئی ٹھکانہ ہے ۔ پھر یہ کہنا فضول ہے کہ جہاں بے کنار ہے ۔ باطنی زمانہ ماہ و سال کی قید سے آزاد ہے ۔ اور اسے صرف عارفین ہی سمجھ سکتے ہیں ۔
کران او درون است و برون نیست درونش پست بالا کم فزون نیست
مطلب: زمانہ کی انتہا تیرے اندر ہے ۔ تیرے باہر نہیں ۔ اسے ماہ و سال کے پیمانے سے ماپنے کی کوشش نہ کر بلکہ اس کی حقیقت باطنی کو سمجھنے کی بات کر ۔ یہ وہ زمانہ ہے جس میں ظاہر کی اونچ نیچ اور کم و بیش نہیں بلکہ ایک مسلسل عمل ہے ۔
درونش خالی از بالا و زیر است ولے بیرون او وسعت پذیر است
مطلب: اس کا اندر (زیر) اور باہر (اوپر) کے حصے خالی ہیں ۔ لیکن اس کا باہر وسعت پذیر ہے ۔ : ابد کی حقیقت کو پانے کے لیے ہماری عقل ناسازگار ہے ابد ایک اکائی ہے لیکن غیر منقسم ہے ۔ عقل کی پہنچ سوچ و بچار کی وجہ سے وہ اکائی ہزاروں میں بٹ گئی ہے (وقفوں اور ساعتوں میں ) تقسیم ہو چکی ہے ۔
چو لنگ است او سکون را دوست دارد نہ بیند مغز و دل بر پوست دارد
مطلب: وہ عقل چونکہ لنگڑی ہے (حقیقت پانے کی صلاحیت سے بے بہرہ ہے) اس لیے وہ سکون کو دوست رکھتی ہے ۔ وہ (عقل) مغز کو (زمانے کے باطن کو) نہیں دیکھتی ۔ وہ اپنا دل اس کے پوست (ظاہری صورت ) پر جمائے ہوئے ہے ۔
حقیقت را چو ما صد پارہ کردیم تمیز ثابت و سیارہ کردیم
مطلب: حقیقت کے جو صرف اکائی ہے جب ہم نے سو ٹکڑے کر دیئے تو پھر ہم نے ساکن اور متحرک میں امتیاز پیدا کیا ۔ (اصل صورت حال یہ ہے کہ سب اشیا الگ الگ ہونے کے باوجود اپنے وجود ظہوری کے لحاظ سے ایک ہیں ) ۔
خرد در لامکان طرح مکان بست چو زنارے زمان را بر میان بست
مطلب: عقل نے لامکان میں مکان کی بنیاد رکھی ۔ اس نے زمان کو برہمن کے زنار کی طرح کمر سے باندھ لیا (ورنہ سوائے لا الہ الا اللہ کے اور کچھ نہیں ) ۔
زمان را در ضمیر خود ندیدم مہ و سال شب و روز آفریدم
مطلب: میں نے زمانے کو اپنے ضمیر کی روشنی میں نہیں دیکھا ۔ اس وجہ سے میں نے اسے ماہ و سال اور شب و روز میں منقسم کر لیا ۔ (حالانکہ ازل سے ابد تک یہ ناقابل تقسیم ہے) ۔
مہ و سالت نمی ارزد بیک جو بحرف کم لبثتم غوطہ زن شو
مطلب: اس ظاہری زمانے کے ماہ و سال ایک جو کی قیمت کے برابر نہیں ہیں ۔ اگر تو اس حقیقت کو سمجھنا چاہتا ہے تو کم لبثتم کے حرف میں غوطہ زنی کر (قرآن مجید اس آیت روز حشر خدا گنہگاروں سے پوچھے گا کہ تم دنیا میں کتنا عرصہ رہے ۔ وہ کہیں گے صرف ایک دن یا دن کا کچھ حصہ ) اس آیت سے ظاہر ہے کہ زمانہ ماہ و سال کی قید سے آزاد ہے اور ناقابل اعتبار ہے ۔
بخود رس از سر ہنگامہ برخیز تو خود را در ضمیر خود فرو ریز
مطلب: اپنے آپ کی پہچان کر اور ہنگامہ کے بالیں سے اٹھ کر (دنیا کی رنگینیوں میں گم ہونے کی بجائے) اپنے اندر گم ہو کر اپنی معرفت حاصل کر ۔ اور اپنے ضمیر میں ڈوب کر زندگی کی حقیقت کو پا لے) ۔
پہلے بند کا خلاصہ
جہان کا وجود حقیقی نہیں اعتباری ہے ۔ اس لیے اس کے وہمی وجود سے دھوکہ نہیں کھانا چاہے اور وجود حقیقی کی تلاش کے لیے اپنے آپ میں گم ہونا ضروری ہے ۔