Please wait..

(۱۱)

 
گرچہ شاہین خرد بر سر پروازے ہست
اندریں بادیہ پنہان قدر اندازے ہست

مطلب: اگرچہ عقل کا شاہین اڑان کے لیے تیار ہے لیکن اس بیابان میں ایک تیر انداز بھی پوشیدہ ہے جو اسے آسانی سے شکار کر لیتا ہے ۔ عشق کی جہاں تک رسائی ہوتی ہے وہاں عقل کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا ۔

 
آنچہ از کار فروبستہ گرہ بکشاید
ہست و در حوصلہ زمزمہ پردازے ہست

مطلب: وہ چیز جو کسی بند کام کی گرہ کھول سکتی ہے اس دنیا میں موجود ہے ۔ وہ چیز عشق کے نغمہ گر عاشق کے عزم و حوصلہ میں پائی جاتی ہے ۔

 
تاب گفتار اگر ہست شناساے نیست
وائے آن بندہ کہ در سینہ او رازے ہست

مطلب: اگر گفتگو کی ہمت اور حوصلہ ہے تو اسے سمجھنے والا کوئی نہیں ۔ اس انسان پر افسوس ہے کہ اس کی سینہ میں راز ہے (نہ تو وہ اس راز کو عیاں کر سکتا ہے اور نہ ہی پوشیدہ رکھ سکتا ہے) ۔

 
گرچہ صد گونہ بصد سوز مرا سوختہ اند
اے خوشا لذت آن سوز کہ ہم سازے ہست

مطلب: اگرچہ خالقِ کائنات نے مجھے سینکڑوں طرح کے سوز میں جلایا ہے لیکن یہ سوز کتنا اچھا کہ اس سوز میں لذت بھی موجود ہے ۔

 
مردہ خاکیم و سزاوار دل زندہ شدیم
این دل زندہ و ما کار خدا سازے ہست

مطلب: ہم تو بے جان مٹی ہیں لیکن زندہ دل لوگوں کے قابل بن گئے ۔ یعنی اللہ نے ہمارے دل کو سوزِ عشق اور معرفت الہٰی سے آشنا کر دیا ۔

 
شعلہ سینہ من خانہ فروز است ولی
شعلہ ہست کہ ہم خانہ بر اندازے ہست

مطلب: شعلہَ عشق سے ہمارا سینہ روشن ہونے والا ہے ۔ عشق کی نعمت سے ہمارے جسم خاکی کے تاریک گھر میں معرفت الہٰی کی روشنی پھیل گئی ہے ۔ لیکن یہ گھر کو برباد کرنے والا بھی ہے ۔ دنیاوی طور پر تو گھر کی بربادی نظر آتی ہے لیکن باطنی لحاظ سے یہ گھر ہر طرح آباد دکھائی دیتا ہے ۔

 
تکیہ بر عقل جہان بین فلاطون نکنم
در کنارم دلکے شوخ و نظر بازے ہست

مطلب: میں عقل پر چاہے وہ افلاطون کی ہی کیوں نہ ہو بھروسہ نہیں کرتا ۔ میرے پہلو میں عشق سے معمور چھوٹا سا دل ہے جو شوخ بھی ہے اور حسن پرست بھی ۔ مجھے اسی پر بھروسہ ہے ۔

(۱۲)

 
این جہان چیست صنم خانہ پندار من است
جلوہ او گرو دیدہ بیدار من است 

مطلب: اس جہان کی حقیقت کیا ہے یہ میرے تصور یا احساس کا بت خانہ ہے ۔ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ دراصل یہ میرے تصورات اور احساسات کی دنیا ہے ۔ اس کی حقیقت میری بیدار آنکھ کی مر ہون منت ہے ۔

 
ہمہ آفاق کہ گیرم بنگاہے او را
حلقہ ہست کہ از گردش پرکار من است

مطلب: یہ ساری کائنات جو میری نگاہ میں سما جاتی ہے وہ ایک حلقہ یا دائرہ ہے جو میری پرکار کی گردش کے باعث ہے ۔ جس طرح دائرہ کا وجود پرکار کی مدد کا محتاج ہے اسی طرح اس کائنات کا وجود بھی میرے فہم و ادراک کا مرہون منت ہے ۔

 
ہستی و نیستی از دیدن و نا دیدن من
چہ زمان و چہ مکان شوخی افکار من است

مطلب: کائنات کا وجود میرے دیکھنے یا نہ دیکھنے پر منحصر ہے ۔ زمان و مکان میرے افکار کی ندرت کا نتیجہ ہیں ۔ یعنی میں نے اپنی فکر اور سوچ کے ذریعے یہ تصورات اپنائے ہیں ورنہ حقیقت کچھ اور ہے ۔

 
از فسون کاری دل، سیر و سکون ، غیب و حضور
این کہ غماز و کشائندہ اسرار من است

مطلب: کائنات میں جو کچھ بھی ہے چاہے وہ متحرک ہے یا ساکن، ظاہر ہے یا پوشیدہ سب دل کی کرشمہ سازی ہے ۔ دل پوشیدہ اسرار سامنے لانے والا ہے اور اس بات کی چغلی کھاتا ہے کہ اصل حقیقت تو انسان خود ہے ۔ اسے خود کو پہچاننے کی صلاحیت کی موجودگی شرط ہے ۔

 
آن جہانے کہ درو کاشتہ رامے دروند
نور و نازش ہمہ از سبحہ و زنار من است

مطلب: وہ جہان جس میں ہم اپنے اعمال کا بدلہ چاہتے ہیں یعنی جو ہم دنیا میں بوتے ہیں وہی دوسرے جہان میں کاٹتے ہیں جنت اور دوزخ اسی بنا پر ملتے ہیں ۔ جنت تسبیح نیک اعمال کے باعث ملے گی اور دوزخ بداعمالیوں کا نتیجہ ہو گا ۔

 
ساز تقدیرم و صد نغمہ پنہان دارم
ہر کجا زخمہ اندیشہ رسد تار من است

مطلب: میں تقدیر کا ساز ہوں اور میرے اندر سینکڑوں نغمے پوشیدہ ہیں ۔ جہاں کہیں بھی سوچ کی مقراب لگتی ہے وہ میرے ہی ساز کا تار ہوتا ہے ۔ یعنی ظاہری مظاہر میری سوچ کا نتیجہ ہیں ۔

 
اے من از فیض تو پائندہ نشان تو کجاست
این دو گیتی اثر ماست جہان تو کجاست

مطلب: اے خدا میں تو تیرے فضل وکرم کی وجہ سے پائندہ ہو گیا ہوں ۔ لیکن تیرا ٹھکانہ کہاں ہے یہ دونوں جہان تو میری فکر کا نتیجہ ہیں پھر تیرا جہان کہاں ہے

(۱۳)

 
فصل بہار این چنین ، بانگ ہزار این چنین
چہرہ کشا، غزل سرا، بادہ بیار این چنین

مطلب: جب بہار کا موسم اتنا دلکش ہو اور بلبلیں گیت گا رہی ہوں تو ایسے میں تو بھی (اے محبوب) اپنے چہرے سے نقاب اٹھا کر اس خوشگوار ماحول کے مطابق شراب وصل پلا دے ۔

 
اشک چکیدہ ام ببیں ہم بہ نگاہ خود نگر
ریز بہ نیستان من برق و شرار این چنین

مطلب: میری آنکھوں سے ٹپکنے والے آنسووَں کو دیکھ اور اپنی کرم کی نگاہ سے بھی دیکھ ۔ میرے سرکنڈوں کے جنگل میں یعنی بے کیف زندگی میں اپنے عشق کی بجلی اور چنگاریاں پھینک دے تاکہ میں تیرے عشق میں جا کر خاک ہو جاؤں ۔

 
باد بہار را بگو، پے بخیال من برد
وادی و دشت را دہد نقش و نگار این چنین

مطلب: اے خدا بہار کی ہوا کو حکم دے کہ وہ میرے خیال کا پتہ معلوم کرے اور اس طرح میرے ذہن کے نقش و نگار یعنی افکار و خیالات سے چمنستانِ جہاں کو رونق بخش دے ۔

 
زادہ باغ و راغ را از نفسم طراوتے
در چمن تو زیستم با گل و خار این چنین

مطلب: جو بھی اس چمنستانِ جہاں اور سبزہ زار میں پیدا ہوا ہے اس میں نمی اور شادابی میرے وجود کی وجہ سے ہے ۔ اے خدا میں نے تیرے اس چمن میں کانٹوں اور پھولوں کے ساتھ زندگی گزاری ہے ۔ دشمن اور دوست سبھی کے ساتھ محبت کی ہے ۔

 
عالم آب و خاک را بر محک دلم بساے
روشن و تار خویش را گیر عیار این چنین

مطلب: پانی اور مٹی کے اس جہان یعنی انسان کے خاکی جسم کو میری دل کی کسوٹی کے مطابق کر دے ۔ اور اس میں خیر و شر کو پرکھنے کا معیار قائم کر دے ۔ کیونکہ جو چیز میرے دل کی کسوٹی پر پوری اترے گی وہ ٹھیک ہو گی ورنہ غلط ہو گی کیونکہ خیر و شر کی پہچان مومن دل ہی کر سکتا ہے ۔

 
دل بکسے نباختہ، با دو جہان نساختہ
من بحضور تو رسم، روز شمار این چنین

مطلب: اے خدا! میں نے تیرے سوا یہ دل کسی اور کو نہیں دیا اور تیرے تعلق کی وجہ سے میں نے دونوں جہانوں سے محبت نہیں کی ۔ میں حشر کے دن تیرے پاس اس حالت میں پہنچوں گا ۔

 
فاختہ کہن صفیر نالہ من شنید و گفت
کس نسرود در چمن نغمہ پار این چنین

مطلب: باغِ جہاں میں پرانے گیت گانے والی فاختہ نے جب میری فریاد سنی تو بولی کہ باغ میں کسی نے پرانا نغمہ اس انداز سے نہیں گایا ۔ مطلب یہ کہ جس طرح تو نے اپنی شاعری میں اپنے اسلاف کے واقعات بیان کئے ہیں اُسے مردانِ حق سراغ ہے

(۱۴)

 
برون کشید ز پیچاک ہست و بود مرا
چہ عقدہ ہا کہ مقام رضا کشود مرا

مطلب: مجھے موت و حیات کی کشمکش سے میرا مقامِ رضا باہر نکال لایا ۔ میرے اس مقام رضا نے میرے کیسے کیسے مسائل حل کر دیے ہیں ۔

 
تپید عشق و دریں کشت نا بسامانے
ہزار دانہ فرو کرد تا درود مرا

مطلب: عشق کی تڑپ و بے چینی نے اس بے سروسامان کھیت میں جس میں کوئی فصل موجود نہیں تھی ہزار دانے ڈال کر پھر کہیں جا کر اس فصل کو کاٹا یعنی آدم کی تخلیق ہوئی ۔

 
ندانم اینکہ نگاہش چہ دید در خاکم
نفس نفس بہ عیار زمانہ سود مرا

مطلب: میں نہیں جانتا کہ میرے تخلیق کار نے میرے جسم خاکی میں کیا دیکھا کہ اس نے ہر ہر سانس میں مجھے زمانے کی کسوٹی پر پرکھا (مجھے ہر آزمائش پر پورا اترنے کے بعد ہی اشرف المخلوقات کا درجہ عطا ہوا) ۔

 
جہانے از خس و خاشاک درمیان انداخت
شرارہ دلکے داد و آزمود مرا

مطلب: میرے درمیان بے قیمت گھاس پھونس کا ایک جہان ڈال دیا گیا ۔ یعنی ایسی دنیا میں بھیج دیا گیا جس کی حیثیت تنکوں سے زیادہ نہیں تھی ۔ پھر میرے چھوٹے سے دل میں ایک چنگاری رکھ کر مجھے آزمائش میں ڈال دیا ۔

 
پیالہ گیر ز دستم کہ رفت کار از دست
کرشمہ بازی ساقی ز من ربود مرا

مطلب: اے ساقی جہاں ! یہ ساغر میرے ہاتھ سے پکڑ لے کیونکہ مجھے جذبہ و مستی نے ہوش و خرد سے بیگانہ کر دیا ہے ۔ ساقی کی اداؤں نے ہی مجھے مست و بے خود کر دیا ہے پھر اس ساغر کی کیا ضرورت ہے ۔

(۱۵)

 
خیز و بخاک تشنہ بادہ زندگی فشان
آتش خود بلند کن آتش ما فرونشان

مطلب: اٹھ اور پیاسی مٹی (آدمی کے خاکی جسم) پر زندگی کی شراب چھڑک دے کیونکہ اس خاکی جسم کے لیے عشق کی شراب تریاق کا کام دے گی ۔ اے خدا تو اپنے عشق کی آگ اس جسم خاکی میں تیز کر دے اور میرے نفس کی آگ ٹھنڈی کر دے ۔

 
میکدہ تہی سبو، حلقہ خود فرامشان
مدرسہ بلند بانگ بزم فسردہ آتشان

مطلب: اب اس عہد کے شراب خانوں کے مٹکے خالی ہو چکے ہیں اور مے کشوں کے گروہ اپنی ذات کی پہچان سے بے خبر ہیں ۔ مطلب یہ کہ آج کے صوفیا کی خانقاہیں بادہَ معرفت سے خالی ہو چکی ہیں آج کا مدرسہ کے بلند بانگ دعوے تو کرتا ہے لیکن اس کے دامن میں بھی مایوس کے سوا کچھ نہیں ۔ وہ بھی علم و عشق سے بیگانہ ہو چکا ہے ۔

 
فکر گرہ کشا، غلام دیں بروایتے تمام
زانکہ درون سینہ ہا دل ہدفے است بے نشان

مطلب: اس دور کے مسلمانوں کی سوچ اور فکر دوسروں کی غلام بن گئی ہے ان کے اصول روایتوں کی پیروی کرتے ہیں ۔ وہ اپنا تشخص کھو چکے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے سینوں میں جو دل ہے وہ ایک بے نشان ہدف کی مانند ہے ۔ جب ہدف کا ہی کچھ پتہ نہیں تو تیر کہاں چلایا جائے ۔ مطلب یہ کہ ان کے دل عشق الہٰی سے خالی ہو چکے ہیں ۔

 
ہر دو بمنزلے روان ، ہر دو امیر کاروان
عقل بحیلہ می برد، عشق برد کشان کشان

مطلب: عقل اور عشق دونوں ہی اپنی اپنی منازل کی طرف جا رہے ہیں ۔ دونوں اپنے اپنے کارواں کے سالار ہیں ۔ لیکن ان میں فرق یہ ہے کہ عقل حیلے بہانوں سے کام لیتی ہے جبکہ عشق آدمی کو ہر مصلحت سے بے نیاز کر دیتا ہے ۔

 
عشق ز پا در آورد خیمہ شش جہات را
دست دراز می کند تا بہ طناب کہکشان

مطلب: عشق میں ایسی قوت ہے کہ وہ چھ اطراف والے خیمہ یعنی زمان و مکان والے خیمہ کے جہان کو گرا دیتا ہے ۔ دنیا کو تسخیر کر لیتا ہے ۔ وہ ایسی طاقت ہے جو کہکشاں تک رسائی رکھتی ہے بلکہ اس سے بھی آگے جہانوں کو اپنے قبضہ میں کر لیتا ہے ۔