محاورہ ما بین خدا و انسان( خدا اور انسان کے درمیان مکالمہ)
خدا
جہان را ز یک آب و گل آفریدم تو ایران و تاتار و زنگ آفریدی
مطلب: میں نے دنیا کو ایک ہی مٹی اور پانی سے بنایا تھا (تمام انسانوں کو یکساں پیدا کیا سب کی اصل ایک ہی ہے) تو نے ایران ، تاتار اور حبش (مختلف ممالک) بنا لیے(رنگ و نسل کا امتیاز دیا) ۔
من از خاک پولاد ناب آفریدم تو شمشیر و تیر و تفنگ آفریدی
مطلب: میں نے مٹی سے خالص لوہا پیدا کیا تھا تو نے اس سے تلوار اور تیر اور بندوق گھڑ لی (مختلف قسم کے ہتھیار بنا لیے) ۔
تبر آفریدی نہال چمن را قفس ساختی طایر نغمہ زن را
مطلب: تو نے چمن کے پودے کے لیے کلہاڑی بنا لی تو نے چہچہاتے پرندے کے لیے پنجرا بنایا (مراد ہے میں نے آسائش اور امن، اتفاق اور بھائی چارہ کے سامان پیدا کیے تو نے فساد، جنگ اور تقسیم کے سامان پیدا کر لیے دنیا میں خرابی تیری وجہ سے ہے) ۔
انسان
تو شب آفریدی چراغ آفریدم سفال آفریدی ایاغ آفریدم
مطلب: تو نے رات بنائی میں نے (اس کو روشن رکھنے کے لیے) چراغ پیدا کیا ۔ تو نے مٹی پیدا کی میں نے (اس سے) پیالہ بنا لیا ۔
بیابان و کہسار و راغ آفریدی خیابان و گلزار و باغ آفریدم
مطلب: تو نے صحرا اور پہاڑ اور جنگل تخلیق کیے میں نے ّان میں کیاری اور پھلواری اور باغ بنائے ۔
من آنم کہ از سنگ آئینہ سازم من آنم کہ از زہر نوشینہ سازم
مطلب: میں وہ ہوں کہ پتھر سے آئینہ بناتا ہوں ، میں وہ ہوں کی زہر سے تریاق نکالتا ہوں (مراد یہ ہے کہ میں مانتا ہوں کہ مجھ میں کچھ عیب ہیں لیکن میری باتیں اچھی بھی تو ہیں میں نہ ہوتا تو کائنات بے رونق ہوتی) ۔