غزل نمبر۱۹
صد نالہ شبگیری صد صبح بلاخیزے صد آہ شرر ریزے یک شعر دلآویزے
مطلب: پچھلے پہر کے سینکڑوں نالے، سینکڑوں بلاخیز صبحیں ، چنگاریاں برساتی سینکڑوں آہیں اٹھتی ہیں تب کہیں دل میں کھب جانے والا شعر وجود میں آتا ہے ۔
در عشق و ہوسناکی دانی کہ تفاوت چیست آن تیشہ فرہادے، این حیلہ پرویزے
مطلب : تو جانتا ہے عشق اور ہوسناکی میں کیا فرق ہے وہ فرہاد کا تیشہ ہے اور یہ پرویز کا مکر (عشق حقیقی کے اندر ایثار و قربانی ہے جبکہ عشق مجازی مکاری اور عیاری کا درس دیتا ہے) ۔
با پردگیان بر گو کاین مشت غبار من گردیست نظر بازے خاکیست بلا خیزے
مطلب: پردے میں رہنے والو (فرشتو) سے برملا کہہ دو کہ یہ میری مٹھی بھر مٹی گرد ہے تاک جھانک کرتی خاک ہے مگر طوفان اٹھاتی ہے (فرشتوں سے افضل ہے) ۔
ہوشم برد اے مطرب، مستم کند اے ساقی گلبانگ دل آویزے از مرغ سحر خیزے
مطلب: اے مطرب! میرے ہوش اڑا لیجاتی ہے اے ساقی مجھے مست کر دیتی ہے کسی بلبل کے دل میں اتر جانے والی چہکار ۔
از خاک سمرقندے ترسم کہ دگر خیزد آشوب ہلاکوے ہنگامہ چنگیزے
مطلب: مجھے امید ہے کہ سمر قند کی خاک سے پھر اٹھنے کو ہے کسی ہلاکو کا طوفان کسی چنگیز کا ہنگامہ ۔
مطرب غزلے بیتے از مرشد روم آور تا غوطہ زند جانم در آتش تبریزے
مطلب: اے مطرب! کوئی غزل شعر مرشد رومی کے ہاں سے گا تا کہ میری روح تبریز کی آگ میں غوطہ کھائے ۔
مولوی ہرگز نشد مولائے روم
تا غلام شمس تبریزی نشد