Please wait..

غزل نمبر۲۰

 
باز بہ سرمہ تاب دم چشم کرشمہ زاے را
ذوق جنوں دو چند کن شوق غزل سراے را

مطلب: جادو جگانے والی آنکھ کو پھر سرمے سے تیز کر لہکتے گاتے شوق میں دیوانگی کی لذت دوبالا کر دے ۔

 
نقش دگر طراز دہ، آدم پختہ تر بیار
لعبت خاک ساختن می نہ سزد خداے را

مطلب: کوئی اور نقش ابھار ایک خوب محکم آدم پید اکر نری مٹی کی مورت (ضعیف انسان) بنانا خدا کو زیب نہیں دیتا ( اقبال نے شوخی اور طنز کے پردہ میں ہمیں استحکام خودی کا پیغام دیا ہے تا کہ ہم ابلیس کا مقابلہ کر سکیں ) ۔

 
قصہ دل نگفتنی است درد جگر نہفتنی است
خلوتیان کجا برم لذت ہاے ہاے را

مطلب: دل کا قصہ کہنے کا نہیں ہے جگر کی چوٹ دکھانے کی نہیں ہے ۔ اے خلوت نشینو ! میں ہائے ہائے کی لذت کو کدھر لے جاؤں (مجھے نالہ و فریاد پر مجبور کرتی ہے) ۔

 
آہ درو نہ تاب کو، اشک جگر گداز کو
شیشہ بسنگ می زنم عقل گرہ کشاے را

مطلب: چھاتی گرمانے ، دل چمکانے والی آہ کہاں ہے ، جگر موم کرنے والے آنسو کہاں ہے ۔ میں گتھیاں کھولنے والی عقل کا شیشہ پتھر پر مارتا ہوں (چور چور کرتا ہوں )(اب خدارا مجھے بتاوَ کہ خانقاہ مرشد کا راستہ کدھر ہے تا کہ میں وہاں جا کر عشق کی لذت سے بہرہ اندوز ہو سکوں ) ۔

 
بزم بہ باغ و راغ کش، زخمہ بہ تار چنگ زن
بادہ بخور، غزل سراے، بند کشا قباے را

مطلب: باغ اور سبزہ زار میں محفل گرم کر، ستار پر مضراب لگا، شراب پی، غزل چھیڑ، قبل کے بند کھول دے(ممکن ہے یہ وقت پھر نہ ملے) ۔

 
صبح دمید و کاروان کرد نماز و رخت بست
تو نشنیدہ ای مگر زمزمہ دراے را

مطلب: پوپھٹی اور قافلے نے نماز ادا کی اور سامان باندھا تو نے شاید گھنٹی کی آواز نہیں سنی ۔ (اس شعر میں اقبال نے غفلت کی زندگی ترک کرنے اور سرگرم عمل ہونے کی تلقین کی ہے) ۔

 
ناز شہان نمی کشم، زخم کرم نمی خورم
در نگر اے ہوس فریب ہمت این گداے را

مطلب: میں بادشاہوں کا احسان نہیں اٹھاتا، بخشش کا زخم نہیں کھاتا ۔ اے ہوس کے پرچائے ہوئے (دنیا کے بندے) اس فقیر کی ہمت دیکھ ۔ (عاشق صادق کبھی کسی بادشاہ کے دربار میں نہیں جاتا اور کسی کا احسان نہیں اٹھاتا لیکن ابو الہوس ساری عمر بادشاہوں کی غلامی میں زندگی بسر کر دیتا ہے) ۔