غزل نمبر۱۸
موج را از سینہ دریا گسستن می تواں بحر بے پایاں بجوے خویش بستن می تواں
مطلب : موج کو دریا کی چھاتی سے الگ کیا جا سکتا ہے ۔ موج (خودی) کو بحر(خدا) سے جدا کر سکتے ہیں ۔ اتھاہ سمندر اپنی ندی میں سمویا جا سکتا ہے ۔
از نوائے می تواں یک شہر دل در خوں نشاند یک چمن گل از نسیمے سینہ خستن می تواں
مطلب: ایک نغمے سے دل کا ایک شہر لہو میں غرق کیا جا سکتا ہے ۔ نسیم کے ایک جھونکے سے چمن بھر پھولوں کا سینہ زخمی کیا جا سکتا ہے ۔
می تواں جبریل را کنجشک دست آموز کرد شہپرش باموے آتش دیدہ بستن می تواں
مطلب: جبریل کو سدھائی ہوئی چڑیا ایسا بنا سکتے ہیں ۔ (اگر عشق حقیقی اختیار کر لے تو وہ جبرئیل جیسے طاقتور کو اپنا مطیع بنا سکتا ہے) ۔ اس کے شپہر جلے ہوئے بال سے باندھے جا سکتے ہیں ۔
اے سکندر سلطنت نازک تر از جام جم است یک جہاں آئینہ از سنگے شکستن می تواں
مطلب: اے سکندر! بادشاہی جمشید کے پیالے سے بھی زیادہ نازک ہے ۔ آئینوں کا ایک جہاں ایک پتھر سے چور ہو سکتا ہے ۔ (مطلب یہ ہے کہ سلطنت کرنے کے لیے بہت دانائی اور عاقبت بینی کی ضرورت ہے کیونکہ بادشاہ کے غیر دانشمندانہ فعل سے بہت سے آئینے ٹوٹ سکتے ہیں ۔ یعنی بہت سے انسان تباہ ہو سکتے ہیں ۔ )
گر بخود محکم شوی سیل بلا انگیز چیست مثل گوہر در دل دریا نشستن می تواں
مطلب: اگر تو اپنے آپ میں اٹل ہو جائے (خودی کو مستحکم کر لے) تو بڑے سے بڑا سیلاب بھی کوئی چیز نہیں ہے (دنیا کی کوئی مصیبت تجھے نقصان نہیں پہنچا سکتی ) ۔ موتی کی طرح سمندر کے دل میں قرار سکون سے بیٹھا جا سکتا ہے ۔ (موتی سمندر میں محفوظ رہتا ہے اگرچہ سمندر میں ہر وقت تلاطم برپا رہتا ہے) ۔
من فقیر بے نیازم مشربم این است و بس مومیائی خواستن نتوان، شکستن می تواں
مطلب: میں بے نیاز فقیر ہوں میرا طریق یہ ہے اور بس ۔ ٹوٹ سکتے ہیں (مر جانا قبول ہے) لیکن کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا گوارا نہیں ہے ۔