لم یلد و لم یولد
قوم تو از رنگ و خون بالاتر است قیمت یک اسودش صد احمر است
مطلب: اے مسلمان! تیری قوم رنگ اور خون سے بہت اونچی ہے ۔ اور اس کے ایک کالے کی قیمت سینکڑوں گورے ہیں ۔ عموماً گورے کو کالے پر ترجیح دی جاتی ہے لیکن اقبال کہتے ہیں کہ اسلام کا ایک کالا سینکڑوں گوروں پر ترجیح کا مستحق ہے ۔ یہ فضیلت اسلام کی بدولت ہے نہ کی رنگ کی بدولت ۔
قطرہ ی آب وضوی قنبری در بھا برتر ز خون قیصری
مطلب: ہمارے کسی قنبر یعنی غلام کے آب وضو کا ایک قطرہ قیمت میں قیصر جیسے شہنشاہ کے خون سے زیادہ گراں ہے ۔
فارغ از باب و ام و اعمام باش ہمچو سلمان زادہ ی اسلام باش
مطلب: تو باپ، ماں اور چچاؤں کے رشتے سے آزاد ہو جا ۔ حضرت سلمان کی طرح اپنا رشتہ اسلام سے جوڑ لے اور اسلام کا فرزند بن جا ۔
نکتہ ئی ای ہمدم فرزانہ بین شھد را در خانہ ہای لانہ بین
مطلب: اے عقلمند دوست ۔ میں تجھے ایک نکتہ بتاتا ہوں توچھتے کے خانوں میں شہد پر نظر ڈال ۔ مکھیاں رس چوس چوس کر شہد بناتی ہیں ۔
قطرہ ئی از لالہَ حمراستی قطرہ ئی از نرگس شہلاستی
مطلب: کوئی قطرہ لالے کے سرخ پھول سے لیا جاتا ہے ، کوئی نرگس شہلا سے ۔
این نمی گوید کہ من از عبہرم آن نمی گوید من از نیلوفرم
مطلب: لیکن کبھی سنا ہے کہ کسی قطرے نے کہا ہو میری اصل نرگس ہے اور دوسرے نے کہا ہو میں نیلوفر کے رس سے بنا ہوں ( گویا شہد مختلف قسم کی پھولوں سے تیار ہوا مگر چھتے میں پہنچا تو ایک جنس ہو گیا ۔ یہی کیفیت ملت اسلامیہ کی ہونی چاہیے ۔ )
ملت ما شان ابراہیمی است شہد ما ایمان ابراہیمی است
مطلب: ہماری ملت شہد کا وہ چھتہ ہے جو حضرت ابراہیم کے ہاتھوں تیار ہوا اور اس میں شہد وہ ایمان ہے جس کا عملی ثبوت حضرت محمد نے دیا اور اسی ایمان کی دعوت حضرت کی زبان پر جاری ہوئی ۔
گر نسب را جزو ملت کردہ ئی رخنہ در کار اخوت کردہ ئی
مطلب: اگر تو نسب اور نسل کو ملت کا جزو بنائے گا تو ظاہر ہے کہ اخوت کے کاروبار میں رخنہ پیدا ہو جائے گا یعنی برادری کی وہ شان کیوں کر قائم رہے گی جو رنگ ، نسب اور خون سے بہت بالا ہے ۔
در زمین ما نگیرد ریشہ ات ہست نا مسلم ہنوز اندیشہ ات
مطلب: یاد رکھ کہ ہماری زمین میں تیرا ریشہ جڑ نہیں پکڑ سکتا کیونکہ تیرے افکار و خیالات ابھی تک نامسلم ہیں ۔
ابن مسعود آن چراغ افروز عشق جسم و جان او سراپا سوز عشق
مطلب: مشہور صحابی حضرت عبداللہ ابن مسعود عشق کا چراغ جلانے والے تھے ۔ ان کا جسم اور جان دونوں سراپا عشق کی حرارت تھے ۔ ان کی مقدس ذات عشق حق کے لیے وقف ہو چکی تھی ۔
سوخت از مرگ برادر سینہ اش آب گردید از گداز آئینہ اش
مطلب: ان کے بھائی نے وفات پائی، اس صدمہ سے ان کا سینہ جل اٹھا اور دل کا آئینہ پگھل کر پانی ہو گیا ۔
گریہ ہای خویش را پایان ندید در غمش چون مادران شیون کشید
مطلب: ان کا رونا دھونا ختم ہی نہ ہوتا تھا اور بھائی کے غم میں وہ ماؤں کی طرح آہ و فغان کرتے تھے ۔
ای دریغا آن سبق خوان نیاز یار من اندر دبستان نیاز
مطلب: (کہتے تھے) افسوس، وہ عقیدت کا سبق لینے والا، جو نیاز مندی کی درس گاہ میں میرا رفیق تھا ۔
آہ آن سرو سہی بالای من در رہ عشق نبی ہمپای من
مطلب: افسوس! سرو کی طرح بلند قامت میرا بھائی ، جو رسول اللہ ﷺ کے عشق میں میرے برابر چلتا تھا ۔
حیف او محروم دربار نبی چشم من روشن ز دیدار نبی
مطلب: افسوس وہ رسول اللہ ﷺ کے دربار سے محروم ہو گیا اور میری آنکھیں حضور ﷺ کے دیدار سے روشن ہیں ۔
نیست از روم و عرب پیوند ما نیست پابند نسب پیوند ما
مطلب: ہمارا باہم رشتہ روم اور عرب پر موقوف نہیں اور نہ اس سے نسب کا کوئی تعلق ہے ۔ یعنی نہ ہمارے نزدیک جغرافیائی حدود کوئی حیثیت رکھتے ہیں اور نہ نسب و خون ۔
دل بہ محبوب حجازی بستہ ایم زین جہت با یکدگر پیوستہ ایم
مطلب : ہم نے حجازی محبوب (رسول اللہ ﷺ) سے دل لگایا ہے ۔ اسی سبب سے ایک دوسرے کے ساتھ ہمارا رشتہ جڑ گیا ہے ۔
رشتہَ ما یک تولایش بس است چشم ما را کیف صہبایش بس است
مطلب: یہی محبت ہمارے نزدیک ایسا تعلق ہے کہ اس سے زیادہ کسی تعلق کی ضرورت نہیں ۔ ہماری آنکھوں کے لیے حضور کی شراب کا نشہ کافی ہے ۔
مستی او تا بخون ما دوید کہنہ را آتش زد و نو آفرید
مطلب: جب اس شراب کی مستی ہمارے خون میں دوڑی تو جتنے پرانے تعلقات اور پرانے رشتے تھے اس نے جلا دییے اور ایک نیا رشتہ پیدا کر دیا ۔
عشق او سرمایہ ی جمیعت است ہمچو خون اندر عروق ملت است
مطلب: رسول اللہ ﷺ کا عشق ہی ہمارے لیے یکجا رہنے کا سامان ہے ۔ یہ عشق خون کی طرح ملت کی رگوں میں دوڑ رہا ہے ۔
عشق در جان و نسب در پیکر است رشتہ ی عشق از نسب محکم تر است
مطلب: عشق جان میں اتر جاتا ہے اور نسب صرف جسم تک محدود رہتا ہے ۔ اس سے ثابت ہے کہ عشق کا رشتہ نسب کے رشتے سے زیادہ مضبوط ہے ۔
عشق ورزی از نسب باید گذشت ہم ز ایران و عرب باید گذشت
مطلب: اگر تو نے رسول اللہ ﷺ سے لو لگائی ہے تو نسب سے بے تعلق ہو جا ، بلکہ ایران و عرب سے بھی رشتہ توڑ لے ۔
امت او مثل او نور حق است ہستی ما از وجودش مشتق است
مطلب: رسول اللہ ﷺ کی امت بھی رسول اللہ ﷺ کی طرح اللہ کا نور ہے ۔ ہماری ہستی حضور ﷺ ہی کے عشق سے پیدا ہوئی ۔
نور حق را کس نجوید زاد و بود خلعت حق را چہ حاجت تار و پود
مطلب: جس خلعت کا تعلق حق سے ہو اسے تانے بانے کی کیا ضرورت ہے
ہر کہ پا در بند اقلیم و جد است بی خبر از لم یلد لم یولد است
مطلب: جس شخص کے پاؤں ملک اور باپ دادا کے بندھنوں میں جکڑے ہوئے ہیں یقین کر لینا چاہے کہ وہ لم یلد ولم یولد کی حقیقت سے بالکل بے خبر ہے ۔ یعنی سورہ اخلاص کے اس ٹکڑے کا مطلب ہی یہ ہے کہ نہ تو مسلمان کسی جغرافیائی کشور اور ولایت کا پابند ہے نہ نسب اور رنگ کا ۔ جو مسلمان ان رشتوں میں جکڑا رہے گا وہ لم یلد ولم یولد پر سچے ایمان کامستحق نہیں سمجھا جا سکتا ۔