Please wait..

زندہ رود مشکلات خود را پیش ارواح بزرگ میگوید
(زندہ رود اپنی مشکلات ان ارواحِ جلیلہ کے سامنے پیش کرتا ہے)

 
از مقام مومنان دوری چرا
یعنی از فردوس مہجوری چرا

مطلب: مومنوں کے مقام سے دور رہنا کیوں ، کس لیے یعنی فردوس سے باہر رہنا کس لیے (گویا یہ حلاج جسے کہا جا رہا ہے ، اب حلاج کی روح جواب دیتی ہے ) ۔

حلاج

 
مرد آزادے کہ داند خوب و زشت
می نگنجد روح او اندر بہشت

مطلب:ایک آزاد مرد جو اچھے اور برے کو خوب پہچانتا ہے اس کی روح بہشت کے اندر نہیں سما سکتی ۔

 
جنت ملا مے و حور و غلام
جنت آزادگان سیر دوام

مطلب: ملا کی جنت تو شراب (شرابِ طہور) حور اور غلماں والی جنت ہے لیکن آزاد لوگوں کی جنت مسلسل گردش کرنا ہے ۔

 
جنت ملا خور و خواب و سرود
جنت عاشق تماشائے وجود

مطلب: ملا کی جنت میں کھانا پینا اور سونا اور موسیقی سننا ہے اور ایک عاشق کی جنت وجود یعنی محبوب حقیقی کے دیدار کی خواہش ہے ۔

 
حشر ملا شق قبر و بانگ صور
عشق شور انگیز خود صبح نشور

مطلب: ملا کا حشر قبر کے کھلنے اور بانگ صور پر مردوں کے اٹھنے کا نام ہے جبکہ ہنگامہ برپا کرنے والا عشق خود قیامت کی صبح ہے ۔

 
علم بر بیم و رجا دارد اساس
عاشقان را نے امید و نے ہراس

مطلب: علم کا دارومدار خوف اور امید پر ہے ۔ عاشق کے لیے نہ تو امید کی کوئی کیفیت ہوتی ہے اور نہ خوف و ہراس کی ۔

 
علم ترسان از جلال کائنات
عشق غرق اندر جمال کائنات

مطلب: علم کائنات کے جلال سے خوفزدہ رہتا ہے جبکہ عاشق کائنات کے حسن میں محو ہوتا ہے ۔

 
علم را بر رفتہ و حاضر نظر
عشق گوید آنچہ می آید نگر

مطلب: علم کی نظر ماضی اور حال پر ہے جبکہ عشق جو دیکھتا ہے وہی کہتا ہے ۔

 
علم پیمان بستہ با آئین جبر
چارہ او چیست غیر از جبر و صبر

مطلب: علم نے جبر کے آئین سے عہد و پیمان کر رکھا ہے ، لہذا جبر اور صبر کے سوا اس کا اور کوئی چارہ کار نہیں ۔

 
عشق آزاد و غیور و ناصبور
در تماشائے وجود آمد جسور

مطلب: عشق آزاد اور غیرت مند اور بے صبر ہے ۔ وہ وجود (محبوب حقیقی) کے دیدار کے معاملے میں بیباک اور دلیر ہے ۔

 
عشق ما از شکوہ ہا بیگانہ ایست
گرچہ او را گریہ مستانہ ایست

مطلب: ہمارا عشق شکووں شکایتوں سے نا آشنا ہے، اس کی گریہ و زاری مستی کی گریہ و زاری ہے ۔

 
این دل مجبور ما مجبور نیست
ناوک ما از نگاہ حور نیست

مطلب: ہمارا یہ مجبور دل مجبور نہیں ہے ۔ ہم پر چلنے والا تیر حور کی نگاہ سے نکلا ہوا نہیں ہے ۔ (عاشق حقیقی حور و غلمان کی خواہش و تمنا نہیں رکھتے) ۔

 
آتش ما را بیفزاید فراق
جان ما را سازگار آید فراق

مطلب: ہجر و فراق ہم عاشقوں کی آگ کو تیز کرتا ہے اور فراق ہی ہماری جان کے موافق ہے ۔

 
بے خلشہا زیستن نا زیستن
باید آتش در تہ پا زیستن

مطلب: دل میں عشق کے کانٹوں کی چھبن کے بغیر جینا کوئی جینا نہیں ۔ ضروری ہے کہ عاشق پاؤں کے نیچے آگ کے ساتھ جیئے ۔ آتش زیر پا رہنا ہی زندگی ہے ۔

 
زیستن این گونہ تقدیر خودی است
از ہمین تقدیر تعمیر خودی است

مطلب: اس طرح جینا خودی کی تقدیر ہے اوراسی تقدیر سے خودی کی تعمیر ہوتی ہے ۔

 
ذرہ ئی از شوق بے حد رشک مہر
گنجد اندر سینہ او نہ سپہر

مطلب: ایک ذرہ اپنے اندر بے حد شوق کے سبب سورج کے لیے باعث رشک بن جاتا ہے اور یوں اس کے سینے میں نو آسمان سما جاتے ہیں ۔

 
شوق چون بر عالمے شبخوں زند
آنیان را جاودانی می کند

مطلب: جب شوق، عشق کسی جہان پر شب خون مارتا ہے تو فانی زندگی والوں کو جاودانی بنا دیتا ہے ۔

زندہ رود

 
گردش تقدیر، مرگ و زندگی است
کس نداند گردش تقدیر چیست

مطلب: تقدیر کی گردش موت اور زندگی ہے ، کوئی نہیں جانتا کہ تقدیر کی گردش کیا ہے

حلاج

 
ہر کہ از تقدیر دارد ساز و برگ
لرزد از نیروئے او ابلیس و مرگ

مطلب: جو کوئی تقدیر کا سازوسامان رکھتا ہے اس کی طاقت سے ابلیس اور موت دونوں پر کپکپی طاری رہتی ہے ۔

 
جبر دین مرد صاحب ہمت است
جبر مردان از کمال قوت است

مطلب: جبر صاحب ہمت مرد کا دین ہے اور مردوں ، دلیروں کا جبر قوت کے کمال کے سبب سے ہے ۔

 
پختہ مردے پختہ تر گردد ز جبر
جبر مرد خام را آغوش قبر

مطلب: ایک پختہ یعنی کامل مرد جبر سے اور بھی زیادہ پختہ تر ہو جاتا ہے ۔ اس کے برعکس ایک مردِ خام ناپختہ کے لیے جبر قبر کی آغوش (موت) بنتا ہے اور یوں وہ موت سے بھی ڈرتا رہے گا ۔

 
جبر خالد عالمے برہم زند
جبر ما بیخ و بن ما بر کند

مطلب: (حضرت )خالد کا جبر ایک دنیا کو تہ و بالا کر دیتا ہے ۔ ہمارا جبر خود ہماری جڑ اکھیڑ ڈالتا ہے ۔

 
کار مردان است تسلیم و رضا
بر ضعیفاں راست ناید این قبا

مطلب: تسلیم و رضا مردوں ، دلیروں کا کام ہے جبکہ ضعیفوں ، کمزوروں پر یہ قبا درست پوری نہیں آتی ۔

 
تو کہ دانی از مقام پیر روم
می ندانی از کلام پیر روم

مطلب: (اے زندہ رود) تو جو پیرِ روم کے مقام سے باخبر ہے کیا تجھے پیر روم کے اس کلام کا علم نہیں ۔

 
بود گبرے در زمان بایزید
گفت او را یک مسلمان سعید

مطلب: حضرت بایزید کے زمانے میں ایک آتش پرست تھا ۔ اس سے ایک نیک بخت مسلمان نے کہا ۔

 
خوشتر آن باشد کہ ایمان آوری
تا بدست آید نجات و سروری

مطلب: کہ اچھی بات تو یہ ہے کہ تو ایمان لے آئے (اسلام قبول کر لے) تا کہ آخرت میں نجات پائے ۔

 
گفت این ایمان اگر ہست اے مرید
آن کہ دارد شیخ عالم بایزید

مطلب: اس پر اس آتش پرست نے کہا کہ اے (بایزید کے ) مرید اگر ایمان یہی ہے کہ جو شیخِ عالم بایزید کا ایمان ہے

 
من ندارم طاقت آن ، تاب آن
کان فزون آمد ز کوششہاے جان

مطلب: تو مجھ میں اسکی تاب اور طاقت نہیں ہے۔

 
کار ما غیر از امید و بیم نیست
ہر کسے را ہمت تسلیم نیست

مطلب: ہمارا کام امید اور ڈر کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔ ہر کسی میں تسلیم و رضا کی ہمت نہیں ہے ۔

 
اے کہ گوئی بودنی این بود شد
کارہا پابند آئین بود شد

مطلب : اے وہ انسان تو جو یہ کہتا تھا کہ جوکچھ ہونے والا تھا وہ یہی تھا اور ہو گیا ۔ ہم ایک آئین کے پابند تھے اس لیے ایسا ہوا ۔

 
معنی تقدیر کم فہمیدہ ئی
نے خودی را نے خدا را دیدہ ئی

مطلب: تو تقدیر کے معنی نہیں سمجھتا، اور یوں تو نے نہ تو خودی کو دیکھا ہے اور نہ خدا ہی کو دیکھا ہے ۔

 
مرد مومن با خدا دارد نیاز
با تو ما سازیم تو با ما بساز

مطلب: مرد مومن خدا کے ساتھ راز و نیا ز رکھتا ہے اور کہتا ہے کہ ہم تجھ سے موافقت کرتے ہیں ۔

 
عزم او خلاق تقدیر حق است
روز ہیجا تیر او تیر حق است

مطلب : اس مردِ مومن کا ارادہ حق کی تقدیر کا خالق ہے ۔ جنگ کے دن اس کا تیر حق بن جاتا ہے ۔

زندہ رود

 
کم نگاہان فتنہ ہا انگیختند
بندہ حق را بدار آویختند

مطلب: بصیرت سے عار ی لوگوں نے فتنے برپا کر دیے انھوں نے ایک بندہَ حق (حلاج) کوپھانسی کے تختے پر چڑھا دیا، سولی پر لٹکا دیا ۔

 
آشکارا بر تو پنہان وجود
باز گو آخر گناہ تو چہ بود

مطلب: تجھ پر وجود کے بھید ظاہر ہیں ، پھر یہ تو بتا کہ آخر تیرا گناہ کیا تھا (جو تجھے سولی پر لٹکایا گیا) ۔