جواب ۔ پہلا بند
خودی ز اندازہ ہاے ما فزون است خودی زان کل کہ تو بینی فزون است
مطلب: ہمارے اندازوں سے خودی کی قوتِ پرواز کہیں بڑھ کر ہے ۔ وہ کل جسے تو دیکھتا ہے اس سے خودی بڑی ہے ۔ عام لوگوں کی نظر میں خود ی کائنات میں ایک نقطہ سا ہے لیکن اہلِ نظر کی بصیرت میں یہ کائنات بہت مختصر ہے ۔ خودی اس سے اعلیٰ ہے ۔
ز گردون بار بار افتد کہ خیزد بہ بحر روزگار افتد کہ خیزد
مطلب: یہ خودی آسمان سے بار بار نیچے اترتی ہے ۔ اور یہ زمانے کے سمندر میں گرتی ہے تا کہ پھر ابھر کر سامنے آئے ۔ خودی ایک بلندی کی چیز ہے لیکن انسانی جسم میں قید ہو کر جدوجہد میں مصروف ہو جاتی ہے تا کہ اس قید سے نجات حاصل کرے ۔
جز او در زیر گردون خود نگر کیست بہ بے بالی چنان پرواز گر کیست
مطلب: اس عالم کون و مکاں میں اپنی معرفت حاصل کرنے والی اس کے سوا اور کون سی شے ہے ۔ اگرچہ اس کے بازو نہیں ہیں ۔ لیکن اس جیسی بلند پروازی اور کس کے پاس ہے خودی ہی ذات کا شعور رکھتی ہے ۔
بہ ظلمت ماندہ و نورے در آغوش برون از جنت و حورے در آغوش
مطلب: اگرچہ وہ ظلمت (آدمِ خاکی) کے جسم میں رہتی ہے لیکن اپنی آغوش میں نور رکھتی ہے ۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کہ وہ خود تو جنت سے باہر ہو اور پہلو میں حور رکھتی ہے ۔
بآن نطقے دل آویزے کہ دارد ز قعر زندگی گوہر بر آرد
مطلب: وہ ایک ایسی دلفریب قوتِ گویائی رکھتی ہے جس کی مدد سے وہ زندگی کے گہرے سمندر سے اسرار و رموز کے موتی نکال لاتی ہے ( یہ قوتِ گویائی ہر آدمی کا خاصہ نہیں ہے بلکہ ان خاص لوگوں (عارفوں ) کا کمال ہے جو خودی آشنا ہوتے ہیں ۔ )
ضمیر زندگانی جاودانی است بچشم ظاہرش بینی، زمانی است
مطلب: زندگی کی ضمیر ہمیشہ رہنے والی ہے ۔ اگر تو اسے ظاہری آنکھ سے دیکھے گا تو یہ تجھے زمانے یعنی لمحاتی اور عارضی نظر آئے گی ۔ (انائے مقید ظاہری آنکھ سے ہ میں عارض اور زمانی دکھائی دیتی ہے کیونکہ اس کا تعلق زمانے کے تغیرات سے ہے ۔ لیکن صاحب بصیرت اسے جب باطنی نگاہوں سے دیکھتے ہیں تو وہ اسے انائے مطلق کا عکس محسوس کرتے ہیں جو کہ لافانی ہے ۔ )
بہ تقدیرش مقام ہست و بود است نمود خویش و حفظ این نمود است
مطلب: اس کی تقدیر میں یہ مقام ہست و بود (زمانہ ماضی و حال) ہے ۔ یہ زمانے خودی یا انائے مقید کے اپنے اندازے ہیں ۔ یہ اپنی نمود اور پھر اس کی نمود کی حفاظت بھی کرتی ہے ۔ انائے مقید زمانے کے اندر رہ کر اپنی نمود چاہتی ہے اور پھر قید زمانہ میں رہتے ہوئے اس کی حفاظت بھی کرتی ہے ۔
چہ می پرسی چہ گون است و چہ گون نیست کہ تقدیر از نہاد او برون نیست
مطلب: تیرا یہ سوال کہ وہ کس طرح کی ہے اور کس طرح کی نہیں ہے اور یہ کہ اس کی تقدیر اس کی ذات سے الگ تو نہیں ہے ۔
چہ گویم از چگون و بے چگونش برون مجبور و مختار اندرونش
مطلب: میں اس کی شکل و صورت کے بارے میں تمہیں کیا بتاؤں سوائے اس کے کہ وہ انائے مقید خارج میں مجبور اور اندر سے مختار ہے ، اپنی مرضی کی مالک ہے ۔
چنیں فرمودہ سلطان بدر است کہ ایمان درمیان جبر و قدر است
مطلب: سلطانِ بدر (رسول اللہ ﷺ) کا فرمانِ مبارک ہے کہ ایمان جبر اور قدر کے درمیان ہے یعنی آدم نہ تو مکمل خود مختار ہے اور نہ ہی مجبور محض لیکن خودی سے آشنائی اسے خود مختار بنا دیتی ہے ۔
تو ہر مخلوق را مجبور گوئی اسیر بند نزد و دور گوئی
مطلب: تو ہر مخلوق کو مجبور خیال کرتا ہے اور اسے زمان و مکان کی قید میں سمجھتا ہے ۔
ولے جان از دم جان آفرین است بچندیں جلوہ ہا خلوت نشین است
مطلب: لیکن جان تو اس کے تخلیق کار کے دم قدم سے ہے ۔ اسے موت نہیں کیونکہ اللہ کی پھونکی ہوئی روح ہے ۔ اور یہ جان اتنے جلووں کے باوجود پوشیدہ ہے ۔
ز جبر او حدیثے درمیان نیست کہ جان بے فطرت آزاد جان نیست
مطلب: جب ہم جبر کا ذکر کرتے ہیں تو اس کے یعنی روح کے جبر کی بات درمیان میں نہیں ہوتی کیونکہ جان آزاد فطرت کے بغیر جان نہیں ہوتی ۔
شبیخون بر جہان کیف و کم زد ز مجبوری بہ مختاری قدم زد
مطلب: اس خودی نے کیف و کم کے جہان پر بے خبری میں حملہ کیا اور اس طرح مجبوری سے مختاری کی طرف قدم بڑھائے ۔ خودی نے ان مجبور عالموں کو فتح کر رکھا ہے اور درجہ اختیار پر فائز ہے ۔
خلاصہ
مطلب: اس بند میں خودی کی ماہیت بیان کی گئی ہے ۔ اور بتایا گیا ہے کہ دوسری اشیاء کی طرح وہ مجبور محض نہیں ۔ اس بند میں مسئلہ جبر و قدر بھی بیان کیا گیا ہے ۔