Please wait..

(۶)
پیام فاروق

 
تو اے باد بیاباں از عرب خیز
ز نیل مصریاں موجے برانگیز

مطلب: اے صحرا کی ہوا تو عرب سے اٹھ اور اہل مصر کے دریائے نیل میں لہر پیدا کر ۔ یعنی مسلمانوں کو اہل فرنگ سے نجات دلا کر اسلام کی حقیقی روح سے آشنا کر ۔

 
بگو فاروق را پیغام فاروق
کہ خود در فقر و سلطانی بیامیز

مطلب: حضرت عمر فاروق کے پیغام کو مصر کے بادشاہ فاروق سے کہہ کہ اپنے آپ میں فقر اور بادشاہی پیدا کرے ۔ یعنی بادشاہی میں درویشانہ انداز اختیار کرے ۔

 
خلافت فقر با تاج و سریر است
زہے دولت کہ پایاں ناپذیر است

مطلب: فقر ہی سے خلافت کا تاج اور تخت شاہی ہے کتنی اچھی دولت ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی ۔

 
جواں بختا مدہ از دست ایں فقر
کہ بے او پادشاہی زود میر است

مطلب: اے خوش قسمت اس فقر کو ہاتھ سے مت جانے دے ۔ کیونکہ اس کے بغیر بادشاہی جلد مر جاتی ہے ۔

 
جواں مردے کہ خود را فاش بیند
جہان کہنہ را باز آفریند

مطلب: اے مسلمان جوان آدمی جو خود کو ظاہر دیکھ لیتا ہے خودی سے آشنا ہو جاتا ہے ۔ پرانے جہان کو پھر سے تعمیر کر لیتا ہے ۔

 
ہزاراں انجمن اندر طوافش
کہ او باخویشتن خلوت گزیند

مطلب: اس دنیا کا طواف ہزاروں انجمنیں کرتی ہیں ۔ کیونکہ اس دنیا نے خود تنہائی اختیار کی ہوئی ہے یعنی خودی کو پا لیا ہے ۔

 
بہ روے عقل و دل بکشاے ہر در
بگیر از پیر ہر میخانہ ساغر

مطلب: عقل اور دل پر ہر دروازہ کھول دے اور ہر مے خانہ کے مالک سے شراب کا پیالہ حاصل کر ۔ یعنی علم و معرفت کی دولت جہاں سے حاصل ہو سکے اسے پانے کی کوشش کر ۔

 
دراں کوش از نیاز سینہ پرور
کہ دامن پاک داری آستیں تر

مطلب: خلوص دل سے کوشش کر کہ تیرا دامن پاک اور آستیں تر رہے ۔ یعنی دوسروں کو فائدہ پہنچانے والا ہو ۔

 
خنک آں ملتے بر خود رسیدہ
ز درد جستجو نا آرمیدہ

مطلب: خوش نصیب ہے وہ قوم جو اپنے اصل مقام تک پہنچ چکی ہے ۔ کیونکہ وہ تلاش و جستجو کی تکلیف سے آرام نہیں کرتی ۔ یعنی وہ اپنی بقا کا راز پا چکی ہے ۔ اور مسلسل آگے بڑھنے کی جدوجہد میں کوشاں ہے ۔

 
درخش او تہ ایں نیلگوں چرخ
چو تیغ از میاں بیروں کشیدہ

مطلب: اس کا نور اس نیلے آسمان کے نیچے یعنی دنیا میں میان سے باہر نکالی ہوئی تلوار کی طرح ہے ۔ مراد یہ ہے کہ دوسرے اس رعب و جلال کی وجہ سے اس سے خوف کھاتے ہیں ۔

 
چہ خوش زد ترک ملاحے سرودے
رخ او احمرے چشمش کبودے

مطلب: ایک ترک ملاح نے کیا سریلا نغمہ گایا ۔ جس کا چہرہ سرخ اور آنکھیں آسمانی نیلی ہیں ۔

 
بدریا گر گرہ افتد بہ کارم
بجز طوفان نمیخواہم کشودے

مطلب اگر مجھے سمندر میں کوئی مصیبت آن پڑے تو میں سوائے طوفان کے کوئی خواہش نہیں کروں گا ۔ یعنی مشکلات و مصائب سے گھبراتا نہیں بلکہ مردانہ وار مقابلہ کرتا ہوں ۔

 
جہانگیری بخاک ما سرشتند
امامت در جبین ما نوشتند

مطلب: ہماری مسلمان قوم کی مٹی کی فطرت میں بادشاہی اور ہماری پیشانی میں امامت لکھی ہوئی ہے ۔

 
درون خویش بنگر آں جہاں را
کہ تخمش در دل فاروق کشتند

مطلب: اس کے ثبوت کے لیے اے مسلمان اپنے اندر اس جہان کو دیکھ جو حضرت عمر فاروق کے دل میں بویا تھا ۔

 
کسے کو داند اسرار یقیں را
یکے بیں می کند چشم دوبیں را

مطلب: جو یقین کے رازوں کو جانتا ہے وہ دو کو دیکھنے والی آنکھ کو ایک کو دیکھنے والی کر دیتا ہے ۔

 
بیا میزند چوں نور دو قندیل
میندیش افتراق ملک و دیں را

مطلب: جیسے دو شمعوں کی روشنی مل کر ایک ہو جاتی ہے اسی طرح وہ بھی دین اور دنیا میں جدائی نہیں ڈال سکتا ۔

 
مسلمانے کہ خود را امتحاں کرد
غبار راہ خود را آسماں کرد

مطلب: جو مسلمان اپنا احتساب خود کرتا ہے وہ اپنے راستے کی گرد کو آسمان کر دیتا ہے ۔

 
شرار شوق اگر داری نگہدار
کہ باوے آفتابی میتواں کرد

مطلب: اگر تو اپنے اندر عشق کا شعلہ رکھتا ہے تو اس کی حفاظت بھی کر ۔ کیونکہ اس سے سورج کا کام لیا جا سکتا ہے ۔

(۷)
شعرائے عرب

 
بگو از من نوا خوان عرب را
بہاے کم نہادم لعل لب را

مطلب: میری طرف سے عرب کے شاعروں سے کہہ کہ میں نے ہونٹوں کے لعل کی بہت کم قیمت ڈالی ہے ۔ یعنی اپنی شاعری میں عورتوں کے لب و لعل کو کم بیان کیا ہے ۔

 
ازاں نورے کہ از قرآں گرفتم
سحر کردم صدوسی سالہ شب را

مطلب: اس نور سے جو میں نے قرآن سے اخذ کیا ۔ میں نے ایک سو تیس سال کی رات کو صبح کر دیا ۔

 
بجانہا آفریدم ہاے و ہو را
کف خاکے شمردم کاخ و کو را

مطلب: میں نے شاعری کے ذریعے لوگوں کی جانوں میں ہاے و ہو پیدا کی ۔ میں نے محلوں اور گلیوں کو مٹی کی مٹھی سمجھا ۔

 
شود روزے حریف بحر پرشور
ز آشوبے کہ دادم آبجو را

مطلب: ایک روز وہ زوردار طوفانوں سے سمندر کے مدمقابل آ جائے گی جسے میں نے ندی سے طوفان عطا کیا ۔ یہاں وہ سے مراد مسلمان ہے جسے اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے کوشش و سعی ،عمل اور عشق کا پیغام دیا ۔

 
تو ہم بگزار آں صورت نگاری
مجو غیر از ضمیر خویش یاری

مطلب: اے شاعرِ عرب تو بھی میری طرح اس صورت نگاری چھوڑ دے اور اپنے ضمیر کی دوستی سے غیر کی آواز کو تلاش کر ۔ یعنی دل کی آواز پر غور کر جو مسلمانوں کی حالت زار پر دکھی ہے ۔

 
بباغ ما بر آوردی پر و بال
مسلماں را بدہ سوزے کہ داری

مطلب: تو نے ہمارے باغ (اسلام) میں بال و پر نشوو نما پا کر اصل مقام حاصل کیا ۔ تجھے چاہیے کہ مسلمان کو وہ سوز عطا کرے جو تو اسلام کی وجہ سے رکھتا ہے ۔

 
بخاک ما دلے در دل غمے ہست
ہنوز ایں کہنہ شاخے را نمے ہست

مطلب: ہماری خاک (جسم) میں دل ہے اور دل میں غم (عشق) ہے ۔ ابھی تک اس پرانی شاخ میں نمی موجود ہے ۔

 
بہ افسون ہنر آں چشمہ بکشاے
درون ہر مسلماں رمزے ہست

مطلب: اس شاعری کے ہنر سے آب زمزم کے چشمے کو کھول جو ہر مسلمان کے باطن میں بند ہے ۔

 
مسلماں بندہ مولا صفات است
دل او سرے از اسرار ذات است

مطلب: مسلمان بندہ ہے لیکن خدا کی صفات رکھتا ہے ۔ اس کا دل ذات خداوندی کے بھیدوں میں سے ایک بھید ہے ۔

 
جمالش جز بہ نور حق نہ بینی
کہ اصلش در ضمیر کائنات است

مطلب: اس کا حسن ماسوائے حق کے نور سے آشنا (باطنی آنکھ) ہی دیکھ سکتی ہے ۔ کہ اس کی نور حق کی جڑ کائنات کے ضمیر میں ہے ۔ یعنی اللہ کا نور کائنات کے ذرے ذرے میں موجود ہے اور مسلمان اس نور سے خالی نہیں ہے ۔

 
بدہ با خاک او آں سوز و تابے
کہ زاید از شب او آفتابے

مطلب: اس کی (مسلمان کی) مٹی (جسم) کو وہ (عشق کی) حرارت اور نور عطا کر جس سے اس کی رات سے سورج پیدا ہو سکے ۔ یعنی اس میں عشق کی حرارت سے خود ی پیدا کر کے اس کی رات کی تاریکی کو ختم کر ۔

 
نوا آں زن کہ از فیض تو او را
دگر بخشند ذوق انقلابے

مطلب: تو ایسی نوا پیدا کر کہ تیرے فیض سے اس مسلمان میں د وبارہ انقلاب کا شوق پید ا ہو جائے ۔

 
مسلمانی غم دل در خریدن
چو سیماب از تپ یاراں تپیدن

مطلب: مسلمانی دل کا غم خریدنا ہے ۔ اسی طرح دوستوں کی بے قراری میں پارے کی طرح تڑپنا ہے ۔

 
حضور ملت از خود در گزشتن
دگر بانگ انا الملت کشیدن

مطلب: مسلمانی یہ ہے کہ وہ اپنی قوم کے مفادات کے لیے اپنے آپ سے گزر جائے ۔ اسی طرح ایک بار پھر انا الملت کا نعرہ بلند کرنے کا نام مسلمانی ہے ۔

 
کسے کو فاش دید اسرار جاں را
نہ بیند جز بچشم خود جہاں را

مطلب: وہ شخص (مسلمان) جس نے روح کے رازوں کو دیکھ لیا ہے وہ دنیا کو اپنی آنکھ کے سوا نہیں دیکھتا ۔ یعنی اس کی آنکھ میں نور حق ہے ۔

 
نواے آفریں در سینہ خویش
بہارے میتواں کردن خزاں را

مطلب: (اے شاعر عرب) اپنے سینے میں ایسی نوا پیدا کر جس سے امت مسلمہ کی خزاں کو بہار میں تبدیل کیا جا سکے ۔

 
نگہدار آں چہ در آب و گل تست
سرور و سوز و مستی حاصل تست

مطلب: اس کی غم و عشق کی کیا حفاظت کرتا ہے جو تیرے پانی اور مٹی میں موجود ہے ۔ جس کا حاصل سرور، سوز و مستی ہے ۔

 
تہی دیدم سبوے این و آں را
مے باقی بہ میناے دل تست

مطلب: میں نے اس اور اس شراب کے پیالے خالی دیکھے ۔ صرف تیرے دل کے پیالے میں شراب باقی ہے ۔

 
شب ایں کوہ و دشت سینہ تابے
نہ دروے مرغے نے موج آبے

مطلب: اس کی رات جس کے سینے کی بے قراری میں پہاڑ اور صحرا ہیں اب ان میں نہ کوئی پرندہ ہے نہ پانی ہے ۔

 
نگردد روشن از قندیل رہباں
تو میدانی کہ باید آفتابے

مطلب: دنیا ترک کرنے والے کی دنیا صوفی حضرات کی شمع سے روشن نہیں ہو سکتی ۔ تو جانتا ہے کہ اسے سورج کی ضرورت ہے ۔

 
نکو میخواں خط سیماے خود را
بدست آور رگ فرداے خود را

مطلب: تو اے عرب کے شاعر اپنی پیشانی کی لکیر کو اچھی طرح سے پڑھ لے ۔ یعنی اپنے ماتھے پر مسلمانیت کا رنگ دیکھ ۔ اور خود سے آنے والے زمانے کی رگ کو اپنے ہاتھ میں لے لے ۔

 
چو من پا در بیابان حرم نہ
کہ بینی اندرو پہناے خود را

مطلب: میری طرح تو بھی حرم کے بیابان میں پاؤں رکھ ۔ تاکہ تو بذات خود ان وسعتوں اور بلندیوں کو پا سکے ۔

(۸)
اے فرزند صحر

 
سحر گاہاں کہ روشن شد در و دشت
صدا زد مرغے از شاخ نخیلے

مطلب: صبح کے وقت جب رستے اور صحرا روشن ہو گئے تو کھجور کی شاخ پر بیٹھے ہوئے ایک مرغ نے آواز بلند کی ۔

 
فروہل خیمہ اے فرزند صحرا
کہ نتواں زیست بے ذوق رحیلے

مطلب: اے صحرا کے رہنے والے شخص خیمہ چھوڑ دے کیونکہ سفر کا لطف لیے بغیر زندگی گزاری نہیں جا سکتی ۔

 
عرب را حق دلیل کارواں کرد
کہ او با فقر خود را امتحان کرد

مطلب: عرب لوگوں کو اللہ نے قافلے کی رہنمائی کرنے والا بنایا ہے ۔ کیونکہ اس نے اپنا احتساب (آزمائش) فقر کے ذریعے کیا ہے ۔

 
اگر فقر تہی دستان غیور است
جہانے را تہ و بالا تواں کرد

مطلب: اگر بے سروسامان لوگوں میں غیرت والا فقر پیدا ہو جائے تو اس سے ایک جہان کو تہ و بالا کیا جا سکتا ہے ۔

 
دراں شب ہا خروش صبح فرداست
کہ روشن از تجلی ہاے سیناست

مطلب: وہاں کی راتوں میں آنے والی کل کا شور و غل پایا جاتا ہے کیونکہ وہ وادی سینا کی تجلیوں سے روشن ہیں ۔

 
تن و جاں محکم از باد در و شب
طلوع امتاں از کوہ و صحراست

مطلب: صحرا اور بستیوں سے جس اور روح دونوں مضبوط ہوتے ہیں ۔ دنیا میں آگے نکلنے والی قو میں صحرا اور پہاڑ سے ہی نکلتی ہیں ۔
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندہَ صحرائی یا مرد کوہستانی

(۹)
توچہ دانی کہ دریں گرد سوارے باشد
(تو کیا جانتا ہے کہ اس اڑتی ہوئی گرد میں کوئی سوار ہو )

 
دگر آئین تسلیم و رضا گیر
طریق صدق و اخلاص و وفا گیر

مطلب: اے مسلمان ایک مرتبہ پھر تسلیم و رضا کو اپنا شعار بنا ۔ اور سچائی، محبت وخلوص اور وفا کے طریقے کو اپنا ۔

 
مگر شعرم جنین است و چناں نیست
جنون زیرکے از من فرا گیر

مطلب: یہ نہ کہہ کہ میرا شعر اس طرح اور اس طرح ہے ۔ یعنی تنقید نہ کر اور نہ ہی بے جا تحسین سے کام لے بلکہ میرے اس جنون سے دانائی یا حکمت حاصل کر ۔

 
چمن ہا زاں جنوں ویرانہ گردد
کہ از ہنگامہ ہا بیگانہ گردد

مطلب: اس جنون (عشق) سے باغات بھی ویران ہو جاتے ہیں کیونکہ (زندگی کو ) ہنگاموں سے اجنبی بنا دیتا ہے ۔

 
ازاں ہوے کہ افگندم دریں شہر
جنوں ماند ولے فرزانہ گردد

مطلب: میں ا س آہ و نالہ سے (عشق و مستی کو) اس شہر میں بھیجنے والا ہوں ۔ لیکن یہ جنوں سمجھداری رکھنے والا ہے یعنی ناکارہ انسان کو کارآمد انسان بنا دینے والا ہے ۔

 
نخستیں لالہ صبح بہارم
پیاپے سوزم از داغے کہ دارم

مطلب: میں صبح بہار کا پہلا لالے کا پھول ہوں جو اس داغ جو میں رکھتا ہوں مسلسل تڑپ رہا ہوں ۔

 
بچشم کم مبیں تنہائیم را
کہ من صد کارواں گل در کنارم

مطلب: میری تنہائی کو تنگ نظری سے نہ دیکھ کیونکہ میرے پہلو میں سینکڑوں گلاب کے پھولوں کے قافلے موجود ہیں ۔

 
پریشانم چو گرد رہ گزارے
کہ بردوش ہوا گیرد قرارے

مطلب: میں راستے کی گرد کی طرح پریشان ہوں ۔ وہ حالت جو ہوا کے کندھوں پر سوار ہو یعنی بہت زیادہ بکھری ہوئی ۔

 
خوشا بختے و خرم روزگارے
کہ بیروں آید از من شہسوارے

مطلب: وہ زمانہ کتنا خوش نصیب اور شاداب ہو گا جس میں مجھ سے کوئی شہ سوار (مومن) پیدا ہو گا ۔

 
خوش آں قومے پریشاں روزگارے
کہ زاید از ضمیرش پختہ کارے

مطلب: وہ قوم جو زمانے کے مصائب کا شکار ہے خوش بخت ہے ۔ کیونکہ اس کے ضمیر سے مرد کامل پیدا ہونے والا ہے

 
نمودش سرے از اسرار غیب است
ز ہر گردے بروں ناید سوارے

مطلب: اس (مرد کامل) کا ظاہر ہونا پوشیدہ رازوں میں سے ایک راز ہے ۔ کیونکہ ہر اڑتی ہوئی گرد و غبار سے کوئی سوار ظاہر نہیں ہوتا ۔

 
بہ بحر خویش چوں موجے تپیدم
تپیدم تا بطوفانے رسیدم

مطلب: میں اپنے سمندر میں لہر کی طرح تڑپتا ہوں ۔ میں تڑپنے کی وجہ سے طوفان (خدائے واحد) سے آشنا ہو گیا ہوں ۔

 
دگر رنگے ازیں خوشتر ندیدم
بخون خویش تصویرش کشیدم

مطلب: میں نے اس سے بہتر (زندگی کا ) دوسرا کوئی رنگ نہیں دیکھا ۔ میں نے اس کی تصویر اپنے خون سے بنائی ہے ۔ یعنی خودی کی بدولت معرفت حق حاصل کرنا نہایت تگ و دو والا کام ہے ۔

 
نگاہش پر کند خالی سبوہا
دواند مے بتاک آرزوہا

مطلب: اس (مرد کامل) کی نگاہ شراب کے خالی پیالوں کو بھر دے گی ۔ ان کی خواہشات کی انگور کی بیل میں شراب دوڑا دے گی ۔

 
ز طوفانے کہ بخشد رایگانی
حریف بحر گردد آبجوہا

مطلب: اس طوفان سے (مسلمانوں کو اللہ کی طرف سے انعام) بلامعاوضہ ہی مل جائے گا ۔ نہریں (کمزور مسلمان) سمندر کا مقابلہ کرنے کی اہل ہو جائیں گی ۔

 
چو بر گیرد زمام کارواں را
دھد ذوق تجلی ہر نہاں را

مطلب: جب (مرد کامل) قافلہ کی باگ دوڑ پکڑے گا تو ہر پوشیدہ کو تجلی کا ذوق و شوق عطا کر دے گیا ۔ یعنی چھپی ہوئی صلاحتیں ظاہر ہو جائیں گی ۔

 
کند افلاکیاں را آنچناں فاش
تہ پا می کشد نہ آسمان را

مطلب: (مرد کامل) آسمانوں کے راز اس طرح ظاہر کرتا ہے جیسے پاؤں کے نیچے نو آسمانوں کو کھینچا جاتا ہے ۔

 
مبارکباد کن آں پاک جاں را
کہ زاید آن امیر کارواں را

مطلب: اس پاکیزہ روح (خاتون) کو مبارکباد دینا جو اس کارواں کے سردار کو پیدا کرے گی ۔

 
ز آغوش چنیں فرخندہ مادر
خجالت می دہم حور جناں را

مطلب: ایسی خوشبخت ماں کی گود سے جنت کی حوروں کو شرمندگی عطا کر رہا ہوں ۔

 
دل اندر سینہ گوید دلبرے ہست
متاعے آفریں غارتگرے ہست

مطلب: میرے سینے میں میرا دل کہہ رہا ہے کہ کوئی مرد کامل ضرور ہے ۔ دولت جتنی چاہے پیدا کر اس کو تباہ کرنے کے لیے کوئی ضرور ہے ۔

 
بگوشم آمد از گردوں دم مرگ
شگوفہ چوں فرو ریزد برے ہست

مطلب:میری موت کے وقت آسمان سے مجھے آواز آئی کہ جب کلی پودے سے گرتی ہے تو پھل پیدا ہوتا ہے ۔ یعنی میرے بعد کوئی رہنما ضرور آئے گا ۔

(۱۰)
خلافت و ملوکیت

 
عرب خود را بہ نور مصطفی سوخت
چراغ مردہ مشرق بر افروخت

 
ولیکن آں خلافت راہ گم کرد
کہ اول مومناں را شاہی آموخت

 
خلافت بر مقام ما گواہی است
حرات است آنچہ برما پادشاہی است

 
ملوکیت ہمہ مکر است و نیرنگ
خلافت حفظ ناموس الہٰی است

 
در افتد باملوکیت کلیمے
فقرے بے کلاہے بے گلیمے

 
گہے باشد کہ بازی ہاے تقدیر
بگیرد کار صرصر از نسیمے

 
ہنوز اندر جہاں آدم غلام است
نظامش خام و کارش ناتمام است

 
غلام فقر گیتی پناہم
کہ در دینش ملوکیت حرام است

 
محبت از نگاہش پایدار است
سلوکش عشق و مستی را عیار است

 
مقامش عبدہ آمد و لیکن
جہان شوق را پروردگار است