در بیان اینکہ حیات خودی از تخلیق و تولید مقاصد است
( اس کے بیان میں کہ خودی کی زندگی کے مقاصد پیدا کرنا اور وجود میں لانا ہے)
زندگانی را بقا از مدعاست کاروانش را درا از مدعاست
مطلب: زندگی کا وجود مقصد پر موقوف ہے اس (زندگی) کے قافلے میں مقصد کو جرس کی حیثیت حاصل ہے ۔
زندگی در جستجو پوشیدہ است اصل او در آرزو پوشیدہ است
مطلب : زندگی تلاش و جستجو میں پوشیدہ ہے اس کی اصل و اساس آرزو میں چھپی ہوئی ہے ۔
آرزو را در دل خود زندہ دار تا نگردد مشت خاک تو مزار
مطلب: تو اپنے دل میں آرزو کو زندہ رکھ، تاکہ بصور ت دیگر تیری یہ مٹھی بھر خاک مزار کی صورت اختیار نہ کر جائے ۔
آرزو جان جہان رنگ و بوست فطرت ہر شے امین آرزوست
مطلب: آرزو اس کائنات رنگ و بو کی جان ہے ۔ ہر شے کی فطرت آرزو کی امانت دار ہے ۔
از تمنا رقص دل در سینہ ہا سینہ ہا از تاب او آئینہ ہا
مطلب: تمنا و آرزو ہی سے دل سینوں میں دھڑکتے ہیں اور سینے، اسی آرزو کی بدولت چمک کر آئینے بنتے ہیں ۔
طاقت پرواز بخشد خاک را خضر باشد موسیٰ ادراک را
مطلب: آرزو خاک میں پرواز کی قوت پیدا کر دیتی ہے ۔ یہ عقل و شعور کے موسیٰ کے لیے خضر (رہنما) بن جاتی ہے ۔
دل ز سوز آرزو گیرد حیات غیر حق میرد چو او گیرد حیات
مطلب: دل کی آرزو کی تپش ہی سے بقا میسر آتی ہے اور جب اسے حیات حاصل ہو جاتی ہے تو پھر ماسوا، یعنی اللہ کے سوا جو کچھ ہے مٹ جاتا ہے ۔ گویا آرزو کی تخلیق سے محروم ہو جانا انسان کی موت ہے ۔
چون ز تخلیق تمنا باز ماند شہپرش بشکست و از پرواز ماند
مطلب: جب وہ (دل) آرزووَں کی تخلیق سے رک گیا تو سمجھ لو کہ اس کا بڑا پر ٹوٹ گیا اور وہ پرواز کے قابل نہ رہا (مردہ ہو گیا) ۔ سوز آرزو کو دل کی زندگی کا باعث ٹھہرایا گیا ہے علامہ نے اردو میں ایک جگہ کیا خوب کہا ہے ۔
دل مردہ دل نہیں ہے اسے زندہ کر دوبارہ
کہ یہی ہے امتوں کے مرض کہن کا چارہ
آرزو ہنگامہ آراے خودی موج بیتابے ز دریائے خودی
مطلب: آرزو ہی خودی کیلیے ہنگامے آراستہ کرتی ہے ۔ اسے خودی کے سمندر کی ایک بے قرار موج سمجھنا چاہیے ۔
آرزو صید مقاصد را کمند دفتر افعال را شیرازہ بند
مطلب: آرزو، مقاصد کے شکار کو پھانسنے والی کمند ہے (بلند مقاصد کے لیے کمند ہے) وہ کاموں اور کارناموں کی کتاب کی جز بندی کرنے والی ہے ۔
زندہ را نفی تمنا مردہ کرد شعلہ را نقصان سوز افسردہ کرد
مطلب: جب کوئی زندہ انسان آرزو اور تمنا سے خالی ہو تو وہ گویا مردہ ہو گیا ( اس کی مثال ) اس شعلے کی سی ہے جس میں جب جلنے کی کیفیت اور حرارت کم ہو جائے تو وہ بجھ جاتا ہے ۔ اس کی ہستی ختم ہو جاتی ہے ۔
چیست اصل دیدہ ی بیدار ما بست صورت لذت دیدار ما
مطلب: ہماری بیدار یعنی دیکھتی آنکھوں کی اصل یا حقیقت کیا ہے یہی کی ہمارے دیدار کی لذت اور ذوق نے ( ان آنکھوں کی) شکل اختیار کر لی ۔
کبک پا از شوخی رفتار یافت بلبل از سعی نوا منقار یافت
مطلب: چکور کو جو پاؤں میسر آئے تو وہ اس کی چال کے البیلے پن کا نتیجہ ہے ۔ بلبل کو جو چونچ ملی ہے تو وہ اس کے نغمے الاپنے کے جذبے کا نتیجہ ہے ۔ گویا شوخی رفتار نہ ہوتی تو چکور کو پاؤں نہ ملتے اور نوا پرائی کا ذوق نہ ہوتا تو بلبل چونچ سے محروم رہتی ۔
نے برون از نیستان آباد شد نغمہ از زندان او آزاد شد
مطلب: بانسری نے اپنے جنگل سے باہر آ کر اپنی آبادی کا سروسامان کیا اور اس طرح اس میں مقید نغمہ آزاد ہو گیا ۔
عقل ندرت کوش و گردون تاز چیست ہیچ میدانی کہ این اعجاز چیست
مطلب: یہ نت نئے انوکھے کام کرنے کی کوشش میں مصروف اور آسمان تک پرواز کرنے والی عقل کیا ہے کیا تجھے کچھ علم ہے کہ یہ کیا اعجاز ہے
زندگی سرمایہ دار از آرزوست عقل از زائیدگان بطن اوست
مطلب: زندگی نے آرزووَں کا سرمایہ فراہم کر لیا اور عقل بھی زندگی کے بطن سے پیدا ہوئی ۔
چیست نظم قوم و آئین و رسوم چیست را ز تازگیہاے علوم
مطلب: یہ قوم کی تنظیم، یہ اس کے دستور اور طور طریقے کیا ہیں ۔ علوم کا تروتازہ رہنا اور نت نئے علوم کا وجود میں آنا کیا ہے یہ سب آرزووَں کے کرشمے ہیں ۔
آرزوئے کو بزور خود شکست سر ز دل بیرون دو صورت بہ بست
مطلب: آرزوئیں پوری طاقت سے اچھل کر راہ پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہیں اسی اچھلنے میں ٹوٹ جاتی ہیں ۔ پھر دل سے باہر نکل کر مختلف صورتیں اختیار کر لیتی ہیں ۔
دست و دندان و دماغ چشم و گوش فکر و تخلیل و شعور و یاد و ہوش
مطلب: ہاتھ اور دانت اور دماغ اور آنکھ اور کان، فکر و تخیل ، شعور اور حافظہ اور دانش (یہ سب کیا ہیں ، حقیقت یہ ہے کہ)جب زندگی نے میدان جنگ (عمل) میں گھوڑا دوڑایا تو اپنی حفاظت کے لیے اس نے یہ ہتھیار تیار کر لیے ۔
آگہی از علم و فن مقصود نیست غنچہ و گل از چمن مقصود نیست
مطلب: علم و فن کا مقصد، محض آگاہی یا معلومات حاصل کرنا نہیں ہے اور نہ چمن کو وجود میں لانے کا مقصد پھول اور کلیاں حاصل کرنا ہے ۔
علم از سامان حفظ زندگی است علم از اسباب تقویم خودی است
مطلب: علم تو زندگی کی حفاظت کے اسباب میں سے ہے، علم تو خودی کو مستحکم کرنے کا ایک ذریعہ ہے ۔
علم و فن از پیش خیزان حیات علم و فن از خانہ زادان حیات
مطلب: علم اور فن تو زندگی کے خدمت گار اور اسکے غلام ہیں ۔ (ان اشعار میں فن برائے فن اور فن برائے زندگی کا فرق بیان کیا گیا ہے) ۔
اے ز راز زندگی بیگانہ خیز از شراب مقصدے مستانہ خیز
مطلب: اے (وہ آدمی) تو جو زندگی کے راز سے ناواقف ہے، بیدار ہو جا اورر مقصد کی شراب پی کر مستی کے عالم میں اٹھ کھڑا ہو(مستی کی کیفیت طاری کر لے) ۔
مقصدے مثل سحر تابندہ ئی ماسویٰ را آتش سوزندہ ئی
مطلب: وہ مقصد ایسا ہو جو صبح کی طرح روشن ہو، جو غیر اللہ جلا کر راکھ کر دینے والا ہو ۔ اللہ کی خوشنودی کے سوا کوئی دوسرا مقصد نہیں ہونا چاہیے ۔
مقصدے از آسمان بالاترے دلربائے دلستانے دلبرے
مطلب: ایسا مقصد جو آسمان سے بھی بلند تر ہو، جو دل کو لبھانے ولا، بہت ہی دل پذیر اور بہت ہی دل کش ہو ۔
باطل دیرینہ را غارتگرے فتنہ در جیبے سراپا محشرے
مطلب: ایسا مقصد جو قدیم باطل کر فنا کر دے ۔ اس کے گریبان میں قیامت کے ہنگامے موجود ہوں ۔
ما ز تخلیق مقاصد زندہ ایم از شعاع آرزو تابندہ ایم
مطلب: نت نئے مقصد پیدا کرتے رہنے ہی میں ہماری زندگی ہے، آرزو ہی کی کرن سے ہمیں چمک دمک نصیب ہے ۔