Please wait..

گلشن راز جدید
تمہید ۔ پہلا بند

 
ز جان خاور آن سوز کہن رفت
دمش واماند و جان او ز تن رفت

مطلب: اہل مشرق کے دلوں سے وہ پرانا سوز باقی نہیں رہا ۔ ان کی سانسیں تھک گئیں ان کے جسم سے جان نکل گئی ۔

 
چو تصویرے کہ بے تار نفس زیست
نمی داند کہ ذوق زندگی چیست

مطلب: اس تصویر کی مانند جو نفس کے تار کے بغیر زندہ ہے اہلِ مشرق بھی زندگی کے ذوق سے بے خبر ہیں ۔ (اہل مشرق مسلمان زندہ ہونے کے باوجود مردہ ہیں ) ۔

 
دلش از مدعا بیگانہ گردید
نئے او از نوا بیگانہ گردید

مطلب: اہل مشرق کا دل ترقی کی آرزو سے بیگانہ ہو گیا ۔ ان کی زندگی کی بانسری گیتوں سے محروم ہو گئی ہے ۔

 
بطرز دیگر از مقصود گفتم
جواب نامہ محمود گفتم

مطلب: میں نے ایک اور انداز سے اپنا مقصد بیان کیا ہے ۔ میں نے محمود شبستری کے خط کا یعنی ان کی کتاب گلشن راز کا جدید انداز سے جواب تحریر کیا ہے ۔

 
ز عہد شیخ تا این روزگارے
نزد مردے بجان ما شرارے

مطلب: شیخ محمود شبستری کے دور سے لے کر اس زمانے تک کسی مردِ کامل نے ہماری جان میں کوئی چنگاری سوزِ عشق نہیں پھینکی ۔

 
کفن در بر بخاکے آرمیدیم
ولے یک فتنہ محشر ندیدیم

مطلب: پہلو میں کفن لیے ہم تو مٹی میں پڑے ہوئے سو رہے مردوں جیسی زندگی بسر کر تے رہے لیکن اس مدت کے دوران ہم نے تو قیامت کا کوئی ہنگامہ نہیں دیکھا (مسلمانوں کی زندگی میں کوئی انقلابی تبدیلی رونما نہیں ہوئی) ۔

 
گزشت از پیش آن دانائے تبریز
قیامت ہا کہ رست از کشت چنگیز

مطلب: تبریز کے رہنے والے اس دانشمند شیخ محمود شبستری کے سامنے سے وہ تمام قیامتیں گزریں ہیں جو منگولیا سے اٹھنے والے طوفان چنگیز خان کی غارت گری سے پیدا ہوئیں ۔

 
نگاہم انقلابے دیگرے دید
طلوع آفتابے دیگرے دید

مطلب: لیکن میری نگاہ نے ایک طرح کا انقلاب دیکھا ہے ایک اور ہی انداز کے سورج کا طلوع دیکھا ہے ۔ اہل مغرب کی غارت گر تہذیب چنگیز خان کی تباہی سے زیادہ خطرناک ہے ۔ میں نے مغربی افکار کی تاریکی دور کرنے کے لیے اپنی شاعری کا انتخاب کیا ہے ۔

 
کشودم از رخ معنی نقابے
بدست ذرہ دادم آفتابے

مطلب: میں نے مغربی تہذیب کے چہرے سے نقاب ہٹا دیا ۔ لوگوں (اہل مشرق) کو حقیقتِ حال سے باخبر کر دیا ہے ۔ میں نے ذرہ کے ہاتھ میں سورج کا جام دے دیا(کمزوروں کو درسِ ہمت دیا) ۔

 
نہ پنداری کہ من بے بادہ مستم
مثال شاعران افسانہ بستم

مطلب: تو یہ نہ سمجھ کہ میں شرابِ حقیقت پئے بغیر ہی مستی میں ڈوبا ہوا ہوں ۔ جو کچھ کہتا ہوں اس پر عمل نہیں کرتا ۔ یہ بھی خیال نہ کر میں نے عام شاعروں کی طرح خیال پرستی پھیلائی ہے (بلکہ میں نے حقیقت نگاری کی ہے) ۔

 
نہ بینی خیز از ان مرد فرو دست
کہ بر من تہمت شعر و سخن بست

مطلب: اس کمینے آدمی سے تو خیر کی امید نہ رکھ کی جس نے مجھ پر شعر و سخن کی تہمت لگائی ہے ( میں نے شاعری کو پیغامِ حقیقت پہنچانے کا ذریعہ بنایا ہے )

 
بکوے دلبران کارے ندارم
دل زارے غم یارے ندارم

مطلب: میرا معشوقوں کی گلی سے کوئی کام نہیں ہے ۔ میں ان عامیانہ شاعروں کی طرح نحیف و نزار دل نہیں رکھتا اور نہ ہی مجھے کسی دوست کا غم ہے (میری شاعری عشق و محبت کے روایاتی خیالات سے پا ک ہے) ۔

 
نہ خاک من غبار رہگزارے
نہ در خاکم دل بے اختیارے

مطلب: نہ عام شاعروں کی طرح میری مٹی کسی کے راستہ کی غبار ہے ۔ میں کوچہَ محبوب کے چکر نہیں لگاتا اور نہ میری مٹی میں غمِ محبوب کے لیے تڑپنے والا دل ہے ۔

 
بجبریل امیں ہم داستانم
رقیب و قاصد و دربان ندانم

مطلب: میں عام شاعروں کی طرح زمینی سوچ نہیں رکھتا میں تو خدا کے مقرب فرشتے جبریل امین کا ہم زبان ہوں ۔ پاکیزہ شاعری کرتا ہوں ۔ اور عام شاعروں کی طرح رقیب، قاصد، دربان جیسی اصطلاحات نہیں جانتا ۔

 
مرا با فقر سامان کلیم است
فر شاہنشی زیر گلیم است

مطلب: میری شاعری میں فقر حضرت موسیٰ کلیم اللہ کی عظمت کے ساز و سامان کے ساتھ موجود ہے ۔ اس شاعری کو پڑھنے کے بعد تجھے دنیا کی بادشاہی کی شان و شوکت اس بوریا نشین کے قدموں تلے نظر آئے گی ۔ اور تجھے خدا سے ہم کلام ہونے کے راز بھی بتائے گی ۔

 
اگر خاکم بصحراے نہ گنجم
اگر آبم بدریاے نہ گنجم

مطلب: اگر میں مٹی ہوں تو وہ مٹی ہوں جو صحرا میں نہیں سما سکتی ۔ اگر میں پانی ہوں تو وہ پانی ہوں جو دریاؤں میں بھی نہیں سما سکتا ۔ ان دونوں سے میں الگ ہوں ۔

 
دل سنگ از زجاج من بلرزد
یم افکار من ساحل نہ ورزد

مطلب: میرے شیشے سے پتھر کا دل بھی خوفزدہ ہے اور میرے افکار کے سمندر کا کوئی کنارہ نہیں ۔

 
نہان تقدیرہا در پردہ من
قیامت ہا بغل پروردہ من

مطلب: میرے پردے میں مقدر پوشیدہ ہیں ، اور قیامتیں میری آغوش میں پرورش پاتی ہیں ۔

 
دمے در خویشتن خلوت گزیدم
جہانے لازوالے آفریدم

مطلب: میں نے ایک لمحے کے لیے دنیا سے الگ ہو کر اپنے آپ پر غور کیا تو ایک لازوال جہان پیدا کر لیا (اب انہی افکار کو صفحہَ ہستی قرطاس پر لکھ رہا ہوں ) ۔

 
مرا زیں شاعری خود عار ناید
کہ در صد قرن یک عطار ناید

مطلب: مجھے عامیانہ شاعری کے برعکس مقصدیت سے بھرپور شاعری کرتے ہوئے شرم محسوس نہیں ہوتی ۔ کہ خواجہ فرید الدین عطار جیسا عارف شاعر صدیوں بعد ہی پیدا ہوتا ہے ۔