عارف ہندی کہ بہ یکے از غارہاے قمر خلوت گرفتہ و اہل ہند اورا ،جہاں دوست ، می گویند
(ہندوستان کا ایک عارف رشی جو چاند کی ایک غار میں خلوت گزیں ہے اور اہل ہند جسے ،جہان دوست، (وشوامتر) کہتے ہیں )
من چو کوران دست بر دوش رفیق پا نہادم اندر آن غار عمیق
مطلب: میں نے اندھوں کی طرح اپنے ساتھی (رومی) کے کندھوں پر ہاتھ رکھا اور اس گہری غار میں قدم رکھا ۔
ماہ را از ظلمتش دل داغ داغ اندرو خورشید محتاج چراغ
مطلب: اس غار کی تاریکی سے چاند کا دل داغ داغ تھا اور اس کے اندر دیکھنے کے لیے سورج بھی چراغ کا محتاج تھا ۔
وہم و شک بر من شبیخون ریختند عقل و ہوشم را بدار آویختند
مطلب : وہم اور شک نے مجھ پر شب خون مارا اور میرے ہوش و عقل کو سولی پر لٹکا دیا ۔
راہ رفتم رہزناں اندر کمین دل تہی از لذت صدق و یقین
مطلب: میں راستہ پر چلتا رہا جبکہ راہزن (وہم و شک) میری گھات میں تھے، اور میرا دل صدق و یقین کی لذت سے خالی تھا ۔
تا نگہ را جلوہ ہا شد بے حجاب صبح روشن بے طلوع آفتاب
مطلب: یہاں تک کہ میری نگاہ پر جلوے ظاہر ہو گئے اور سورج کے طلوع ہوئے بغیر ہی صبح روشن ہو گئی ۔
وادی ہر سنگ او زنار بند دیو سار از نخلہاے سر بلند
مطلب: مجھے اس روشنی میں ایک وادی نظر آئی جس کا ہر پتھر زنار باندھے ہوئے تھا اور وہ وادی بہت اونچے اونچے درختوں کی وجہ سے دیووں کا ٹھکانا معلوم ہوتی تھی ۔
از سرشت آب و خاک است این مقام یا خیالم نقش بندد در منام
مطلب: میں سوچنے لگا کہ یہ وادی آب و خاک کے جہان کی سی فطرت والی ہے ، یا پھر میرا خیال ہی نیند میں یہ سب نقش دیکھ رہا تھا ۔
در ہواے او چو مے ذوق و سرور سایہ از تقبیل خاکش عین نور
مطلب: اس کی ہوا میں شراب کا لطف و سرور تھا ۔ سایہ اس کی خاک پر پڑنے سے سراپا نور بن رہا تھا ۔
نے زمینش را سپہر لاجورد نے کنارش از شفقہا سرخ و زرد
مطلب: نہ تو اس کی زمین کے اوپر کوئی نیلا آسمان تھا اور نہ اس کا کنارہ ہی شفق سے سرخ اور زرد تھا ۔
نور در بند ظلام آنجا نبود دود گرد صبح و شام آنجا نبود
مطلب: وہاں نور تاریکی کی قید میں نہ تھا ۔ اور نہ وہاں کی صبح اور شام کے گرد دھواں ہی تھا ۔
زیر نخلے عارف ہندی نژاد دیدہ ہا از سرمہ اش روشن سواد
مطلب: وہاں ایک درخت کے نیچے ایک ہندی نسل کا عارف بیٹھا ہوا تھا اس کی آنکھیں سرمے سے روشن تھیں ۔
موئے بر سر بستہ و عریان بدن گرد او مارے سفیدے حلقہ زن
مطلب: اس نے بال سر پر باندھ رکھے تھے ۔ اور اس کا بدن ننگا تھا ۔ اس کے گرد ایک سفید سانپ حلقہ بنائے بیٹھا تھا ۔
آدمے از آب و گل بالا ترے عالم از دیر خیالش پیکرے
مطلب: وہ عام آدمیوں سے برتر انسان تھا اور اس کے خیال کے مندر کے مطابق جہان ایک پیکر تھا ۔
وقت او را گردش ایام نے کار او با چرخ نیلی فام نے
مطلب: اس کے وقت میں دنوں کی گردش کا گزر نہ تھا اور اس کے نیلے رنگ کے آسمان سے کوئی سروکار نہ تھا ۔
گفت با رومی کہ ہمراہ تو کیست در نگاہش آرزوے زندگیست
مطلب: اس (عارف ہندی) نے رومی سے پوچھا، تیرے ساتھ یہ کون ہے اس کی نگاہ میں زندگی کی آرزو ہے ۔
رومی
مردے اندر جستجو آوارہ ئی ثابتے با فطرت سیارہ ئی
مطلب: (رومی نے اسے بتایا کہ ) یہ ایسا آدمی ہے جو تلاش میں آوارہ پھر رہا ہے اور ایک ایسا ثابت ہے جس کی فطرت سیارے کی سی ہے ۔
پختہ تر کارش ز خامی ہاے او من شہید نا تمامی ہاے او
مطلب: اس کی خامیوں سے اس کا کام پختہ ہے ۔ میں تو اس کی ناتمامی کا شہید ہوں (جان دیتا ہوں ) ۔
شیشہ خود را بگردون بستہ طاق فکرش از جبریل می خواہد صداق
مطلب: اس نے اپنی صراحی کے لیے آسمان کو طاق بنا رکھا ہے ۔ اس کی فکر حضرت جبرئیل جیسے فرشتہ سے تصدیق چاہتی ہے ۔
چون عقاب افتد بصید ماہ و مہر گرم رو اندر طواف نہ سپہر
مطلب: وہ عقاب کی طرح چاند اور سورج کے شکار پر جھپٹتا ہے اور نو آسمانوں کے طواف میں سرگرم رہتا ہے ۔
حرف با اہل زمین رندانہ گفت حور و جنت را بت و بتخانہ گفت
مطلب: اس نے اہل زمین سے رندانہ گفتگو کی ہے اور حور و جنت کو بت اور بت خانہ کہا ہے ۔
شعلہ ہا در موج دودش دیدہ ام کبریا اندر سجودش دیدہ ام
مطلب: میں نے اسکے دھوئیں کی موج میں شعلے دیکھے ہیں اور خدا کو اسکے سجدے کے اندر دیکھا ہے (اسکے سجدوں میں عظمت دیکھی) ۔
ہر زمان از شوق می نالد چو نال می کشد او را فراق و ہم وصال
مطلب: وہ شوق کی بنا پر ہر وقت بانسری کی طرح نالے کھینچتا ہے ۔ اسے ہجر بھی مارتا ہے اور وصل بھی ۔
من ندانم چیست در آب و گلش من ندانم از مقام و منزلش
مطلب: میں نہیں جانتا کہ اس کی سرشت میں کیا ہے اور نہ مجھے اس کے مقام و منزل ہی کی کچھ خبر ہے ۔
جہاں دوست
عالم از رنگ است و بے رنگی است حق چیست عالم چیست آدم چیست حق
مطلب: عالم رنگ سے ہے (مادی ہے) اور حق بے رنگ ہے (لاثانی) ۔ عالم کیا ہے آدم کیا ہے اور حق کیا ہے ۔ جہاں دوست نے رومی سے سوالات کئے ۔
رومی
آدمی شمشیر و حق شمشیر زن عالم این شمشیر را سنگ فسن
مطلب:آدمی تلوار ہے اور حق تلوار چلانے والا ہے جبکہ یہ کائنات اس تلوار کے سان کا پتھر ہے ۔
شرق حق را دید و عالم را ندید غرب در عالم خزید، از حق رمید
مطلب: مشرق نے حق کو تو دیکھا لیکن عالم کو نہ دیکھا جبکہ مغرب عالم میں رنگتا رہا اور حق سے دور ہو گیا ۔
چشم بر حق باز کردن بندگی است خویش را بے پردہ دیدن زندگی است
مطلب: حق پر آنکھ کھولنا (نگاہ کرنا) ہی بندگی ہے او ر خود کو بے پردہ دیکھنا ہی زندگی ہے ۔
بندہ چوں از زندگی گیرد برات ہم خدا آن بندہ را گوید صلوٰت
مطلب: جب کوئی بندہ زندگی سے حصہ حاصل کرتا ہے (اپنے آپ کو بے پردہ دیکھتا ہے) تو ایسے بندے پر اللہ تعالیٰ بھی صلوۃ و سلام بھیجتا ہے ۔
ہر کہ از تقدیر خویش آگاہ نیست خاک او با سوز جان ہمراہ نیست
مطلب: جو شخص بھی اپنی تقدیر سے آگاہ نہیں ہے ۔ اس کی خاک سوزِ جان کا ساتھ نہیں دیتی ۔ (وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار نہیں لا سکتا) ۔
(جہاں دوست)
بر وجود و بر عدم پیچیدہ است مشرق این اسرار را کم دیدہ است
مطلب: وہ مشرق تو وجود اور عدم کے نظریات میں الجھا رہا ہے ۔ مشرق نے یہ راز نہیں دیکھے ۔
کار ما افلاکیان جز دید نیست جانم از فرداے او نومید نیست
مطلب: ہم آسمان پر رہنے والوں کے کام دیکھنے کے سوا کچھ نہیں ۔ میری جان اس مشرق کے مستقبل سے نا امید نہیں ہے ۔
دوش دیدم بر فراز قشمرود ز آسمان افرشتہ ئی آمد فرود
مطلب: کل میں نے چاند کے پہاڑ سے ایک فرشتے کو نیچے اترتے دیکھا ۔
از نگاہش ذوق دیدارے چکید جز بسوے خاکدان ما ندید
مطلب: اس کی نگاہ سے ذوقِ دیدار ٹپکتا تھا ۔ اس نے ہمارے مٹی کے جہاں کے سوا اور کسی طرف نہ دیکھا ۔
گفتمش از محرمان رازے مپوش تو چہ بینی اندر آن خاک خموش
مطلب: میں (وشوامتر) نے اس فرشتے سے کہا کہ تو اپنے رازداروں سے راز نہ چھپا ۔ تجھے اس خاموش خاک میں کیا نظر آتا ہے
از جمال زھرہ ئی بگداختی دل بہ چاہ بابلے انداختی
مطلب: کیا تو ستارہ زہرہ کے حسن سے پگھل گیا ہے کیا تو نے بابل کے کنویں میں اپنا دل ڈال دیا ہے ۔
گفت ہنگام طلوع خاور است آفتاب تازہ او را در بر است
مطلب: فرشتے نے کہا کہ مشرق میں سورج طلوع ہونے کا وقت آ گیا ہے اور ایک نیا سورج اس کے پہلو میں ہے ( میں دیکھ رہا ہوں کہ مشرق میں انقلاب آنے والا ہے ) ۔
لعلہا از سنگ رہ آید برون یوسفان او ز چہ آید برون
مطلب: اس مشرق کے راستے کے پتھروں سے لعل نکلیں گے ۔ اس کے یوسف کنویں سے باہر آئیں گے ۔
رستخیزے در کنارش دیدہ ام لرزہ اندر کوہسارش دیدہ ام
مطلب: میں نے اس مشرق کے پہلو میں ایک قیامت دیکھی ہے ۔ اور اسکے کوہسار لرزتے کانپتے دیکھا ہے ۔
رخت بندد از مقام آزری تا شود خوگر ز ترک بت گری
مطلب: وہ آزری کے مقام سے اپنا سامانِ سفر باندھ رہا ہے تاکہ وہ بت تراشی کو چھوڑنے کا عادی ہو جائے ۔
اے خوش آن قومے کہ جان او تپید از گل خود خویش را باز آفرید
مطلب: مبارک ہے وہ قوم جس کی جان میں تڑپ پیدا ہو جائے اور وہ اپنی مٹی سے اپنے آپ کو از سر نو پیدا کرے ۔
عرشیان را صبح عید آن ساعتے چون شود بیدار چشم ملتے
مطلب: اہل عرش فرشتوں کے لیے وہ گھڑی عید کی صبح ہوتی ہے جب کسی قوم کی آنکھ بیدار ہو جاتی ہے ۔
پیر ہندی اندکے دم در کشید باز در من دید و بے تابانہ دید
مطلب: ہندی بزرگ (وشوامتر) کچھ دیر کے لیے خاموش رہا ۔ پھر اس نے میری طرف دیکھا اور بے تابانہ دیکھا ۔
گفت مرگ عقل گفتم ترک فکر گفت مرگ قلب گفتم ترک ذکر
مطلب: اس نے مجھ سے پوچھا، عقل کی موت کیا ہے میں نے جواب دیا کہ وہ فکر کو ترک کر دینا ہے ۔ پھر اس نے پوچھا ، دل کی موت کیا ہے میں نے کہا وہ ذکر کا ترک کر دینا ہے ۔
گفت تن گفتم کہ زاد از گرد رہ گفت جان گفتم کہ رمز لا الہ
مطلب:اس نے پوچھا کہ تن کیا ہے میں نے کہا کہ وہ راستے کی گرد سے پیدا ہوا ہے ۔ اس نے پوچھا جان کیا ہے، میں نے جواب دیا کہ وہ لا الہ کی ایک رمز ہے ۔
گفتم آدم گفتم از اسرار اوست گفت عالم گفتم او خود رو بروست
مطلب: اس (وشوامتر) نے پوچھا، آدم کیا ہے میں نے کہا وہ اللہ کے رازوں میں سے ایک راز ہے ۔ اس نے پوچھا عالم کیا ہے، میں نے جواب دیا وہ خود سامنے ہے ۔
گفت ایں علم و ہنر گفتم کہ پوست گفت حجت چیست گفتم روے دوست
مطب: اس نے پوچھا ، یہ علم و ہنر کیا ہے میں نے کہا کہ یہ محض چھلکا ہے یعنی یہ مغز سے خالی ہے ۔ پھر اس نے پوچھا کہ (حق تعالیٰ کے) وجود پر حجت کیا ہے میں نے کہا محبوب حقیقی کا چہرہ ۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے پس جس طرف بھی تم منہ کر لو وہیں اللہ کا چہرہ ہے ۔
گفت دین عامیان گفتم شنید گفت دین عارفان گفتم کہ دید
مطلب: اس نے پوچھا عام لوگوں کا دین کیا ہے میں نے کہا وہ سنی سنائی باتوں پر بھروسے کا نام ہے ۔ اس نے پوچھا عارفوں کا دین کیا ہے میں نے جواب دیا، وہ دید ہے (عین الیقین) ۔
از کلامم لذت جانش فزود نکتہ ہاے دل نشین بر من کشود
مطلب: میرے کلام سے اس (پیر ہندی) کی جان کی لذت میں اضافہ ہوا اوراس نے مجھ سے چند دل نشین نکتے واضح کیے ۔
نہ تاسخن از عارف ہندی
(عارف ہندی کی نو باتیں )
ذات حق را نیست ایں عالم حجاب غوطہ را حائل نگردد نقش آب
مطلب: ذاتِ حق کے لیے یہ کائنات پردہ نہیں ہے ۔ پانی کی سطح کا نقش غوطہ لگانے میں حائل نہیں بنتا ۔
زادن اندر عالمے دیگر خوش است تا شباب دیگرے آید بدست
مطلب: کسی اور دوسرے جہان میں پیدا ہونا اچھی بات ہے تاکہ ایک اور جوانی ہاتھ لگ جائے ۔
حق وراے مرگ و عین زندگی است بندہ چوں میرد نمی داند کہ چیست
مطلب: حق موت سے ماورا اور سراپا زندگی (عین حیات) ہے ۔ بندہ جب مرتا ہے تو وہ نہیں جانتا کہ یہ حق کیا ہے
گرچہ ما مرغان بے بال و پریم از خدا در علم مرگ افزون تریم
مطلب: اگرچہ ہم بال و پر کے بغیر پرندے ہیں لیکن موت کے بارے میں ہمارا علم خدا سے زیادہ ہے ۔ مطلب یہ کہ خدا تعالیٰ حی و قیوم ہے یعنی ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے ۔
وقت شیرینی بزہر آمیختہ رحمت عامے بقہر آمیختہ
مطلب: وقت کیا ہے یہ ایسی شیرینی ہے جس میں زہر ملا ہوا ہے ۔ یہ عام رحمت ہے جس میں قہر ملا ہوا ہے ۔
خالی از قہرش بہ بینی شہر و دشت رحمت او ایں کہ گوئی در گزشت
مطلب: تو شہر اور بیابان کو وقت کے قہر سے خالی دیکھتا ہے ۔ اس کی رحمت یہ ہے کہ تو کہے وقت گزر گیا ۔
کافری مرگ است اے روشن نہاد کے سزد بامردہ غازی را جہاد
مطلب: اے روشن فطرت ضمیر انسان (اقبال) یہ جان لے کہ کافری (خدا کے وجود سے انکار) موت ہے ۔ غازی کو زیب نہیں دیتا کہ وہ مردے سے جہاد کرے ۔
مرد مومن زندہ و با خود بجنگ بر خود افتد ہمچو بر آہو پلنگ
مطلب: مردِ مومن زندہ ہے اور وہ اپنے آپ سے برسرِ پیکار ہے ۔ وہ مومن اپنے آپ پر کچھ اس انداز میں چھپٹتا ہے جیسے چیتا، ہرن پر جھپٹتا ہے ۔
کافر بیدار دل پیش صنم بہ ز دیندارے کہ خفت اندر حرم
مطلب: بت کے سامنے بیٹھا ہوا ایک بیدار دل کافر اس دین دار (مسلمان) سے افضل ہے جو کعبہ میں سویا ہوا ہے ۔
چشم کورست اینکہ بیند ناصواب ہیچکہ شب را نہ بیند آفتاب
مطلب: وہ آنکھ جو برائی کو دیکھتی ہے وہ اندھی ہے ۔ سورج کو کسی جگہ بھی رات نظر نہیں آتی ۔
صحبت گل دانہ را سازد درخت آدمی از صحبت گل تیرہ بخت
مطلب:مٹی کی صحبت دانہ کو درخت بنا دیتی ہے ۔ جبکہ آدمی مٹی کی صحبت سے بدبخت ہو جاتا ہے ۔
دانہ از گل می پذیرد پیچ و تاب تا کند صید شعاع آفتاب
مطلب: دانہ مٹی کے اندر پیچ و تاب کھا کر اس سے باہر نکل آتا ہے تاکہ وہ آفتاب کی شعاع کو شکار کر سکے ۔
من بگل گفتم بگو اے سینہ چاک چوں بگیری رنگ و بو از باد و خاک
مطلب: میں نے پھول سے کہا کہ اے سینہ چاک تو ذرا یہ تو مجھے بتا کہ ہوا اور مٹی سے رنگ اور خوشبو کیسے حاصل کرتا ہے
گفت گل اے ہوشمند رفتہ ہوش چون پیامے گیری از برق خموش
مطلب: پھول نے کہا کہ اے ہوش سے خالی صاحب ہوش تو خاموش بجلی سے پیغام کیسے حاصل کرتا ہے
جاں بہ تن ما را ز جذب این و آن جذب تو پیدا و جذب ما نہان
مطلب: ہمارے جسم میں جو جان ہے وہ اس اور اس کے جذب سے ہے ۔ تیرا جذب ظاہر ہے اور ہمارا جذب پوشیدہ ہے ۔