Please wait..

غزل نمبر۲۶

 
این گنبد مینائی، این پستی و بالائی
درشد بدل عاشق با این ہمہ پہنائی

مطلب: یہ گنبد مینائی (آسمان) یہ پستی اور بلندی، سب اپنی وسعت کے باوجود عاشق کے دل میں سما جاتے ہیں ۔

 
اسرار ازل جوئی بر خود نظرے وا کن
یکتائی و بساری، پنہائی و پیدائی

مطلب: تو ازل کے راز جاننا چاہتا ہے تو اپنے آپ پر آنکھیں کھول ایک بھی تو ہے ، ہزار بھی تو ، چھپا ہوا بھی تو ہے، ظاہر بھی تو ۔ یعنی صفات حق خود تیرے اندر جلوہ گر ہیں ۔

 
اے جان گرفتارم دیدی کہ محبت چیست
در سینہ نیاسائی از دیدہ برون آئی

مطلب: اے میری جان گرفتار تو نے دیکھ لیا کہ محبت کیا ہے اب تو سینے میں نہیں سما سکتی ، آنکھوں کے راستے باہر آ رہی ہے (آنکھوں سے آنسو بن کر نکل آتی ہے) ۔

 
برخیز کہ فروردین افروخت چراغ گل
برخیز و دمے بنشین با لالہ ی صحرائی

مطلب: اٹھ کہ بہار نے پھولوں کے چراغ روشن کر دیے ہیں اٹھ اور لمحہ بھر کے لیے بن کے لالے کے ساتھ بیٹھ ۔

 
عشق است و ہزار افسون ، حسن است و ہزار آئین
نے من بہ شمار آیم، نے تو بہ شمار آئی

مطلب: عشق ہے اور ہزار چالیں ، حسن ہے اورر ہزار ادائیں نہ مجھے گنا جا سکتا ہے نہ تیری گنتی ہو سکتی ہے ۔

 
صد رہ بفلک برشد، صد رہ بہ زمیں درشد
خاقانی و فغفوری ، جمشیدی، دارائی

مطلب: سو بار آسمان تک پہنچی، سو بار ز میں میں دھنسی ، خاقانی اور فغفوری، جمشیدی اور دارائی ۔ (بادشاہت کا انجام فنا ہے) ۔

 
ہم با خود و ہم با او ہجران کہ وصال است این
اے عقل چہ میگوئی، اے عشق چہ فرمائی

مطلب: اپنے آپ میں بھی رہنا اور اس اللہ تعالیٰ میں بھی گم ہونا یہ جدائی ہے کہ ملن اے عقل تو کیا کہتی ہے، اے عشق تو کیا فرماتا ہے