غزل نمبر۸
بیا کہ ساقی گل چہرہ دست بر چنگ است چمن ز باد بہاران جواب ارژنگ است
مطلب: آ جا کہ گل چہرہ ساقی نے ساز پر ہاتھ رکھا ہے بہار کی ہوا سے چمن ارژنگ کا جواب بن گیا ہے(نہایت دلکش معلوم ہوتا ہے) ۔
حنا ز خون دل نو بہار می بندد عروس لالہ چہ اندازہ تشنہ ی رنگ است
مطلب: نئی نویلی بہار کے دل کے لہو سے مہندی لگا رہی ہے عروس لالہ رنگ رچانے کی کتنی پیاسی ہے ۔
نگاہ می رسد از نغمہ ی دل افروزی بمعنی کہ برو جامہ ی سخن تنگ است
مطلب: دل کو روشن کرنے والے نغمے سے نظر پہنچ رہی ہے اس معنی تک جس پر حرف کا جامہ تنگ ہے (جو الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتے) ۔ یعنی موسم بہار میں مطرب دلنواز (مرشد) جب نغمہ سرائی کرتا ہے تو سامعین (عاشقوں ) پر وہ روحانی حقائق منکشف ہوتے ہیں کہ لفظوں کے ذریعے سے ان کا بیان ناممکن ہے ۔
بچشم عشق نگر تا سراغ او گیری جہاں بچشم خرد سیمیا و نیرنگ است
ز عشق در عمل گیر و ہر چہ خواہی کن کہ عشق جوہر ہوش است و جان فرہنگ است
مطلب: عشق سے عمل کا سبق لے اور پھر جو چاہے کر کیونکہ عاشق سمجھ کا جوہر ہے اور عقل کی روح (جان) ہے ۔
بلند تر ز سپہر است منزل من و تو براہ قافلہ خورشید میل فرسنگ است
مطلب: ہماری منزل آسمان سے بھی زیادہ بلند ہے سورج قافلے کی راہ میں کوس کے پہلے میل پر ہے ۔
ز خود گزشتہ ئی اے قطرہ ی محال اندیش شدن بہ بحر و گہر بر نخاستن ننگ است
مطلب: اے انہونی سوچنے والے قطرے تو اپنے آپ سے گزر گیا ہے ورنہ سمندر میں مل جاتا اور موتی بن کے نہ نکلنا باعث شرم ہے ۔
تو قدر خویش ندانی بہا ز تو گیرد وگرنہ لعل درخشندہ پارہ ی سنگ است
مطلب: تو اپنا مول نہیں جانتا، تیری وجہ سے تو لعل درخشاں قیمت پاتا ہے ورنہ جگر جگر کرتا یاقوت تو پتھر کا ٹکڑا ہے ۔