غزل نمبر۱۱
از ما بگو سلامے آن ترک تند خو را کا آتش زد از نگاہے یک شہر آرزو را
مطلب: ہماری طرف سے اس ظالم محبوب کو سلام کہنا کہ تو نے ایک نگاہ سے تمنا کا پورا شہر پھونک ڈالا ۔
این نکتہ را شناسد آن دل کہ دردمند است من گرچہ توبہ گفتم نشکستہ ام سبو را
مطلب: یہ نکتہ صرف درد مند ہی سمجھ سکتا ہے میں نے اگرچہ توبہ کا اعلان کیا مگر پیالہ توڑا نہیں (واپسی کی گنجائش رکھی ہوئی ہے) ۔
اے بلبل از وفایش صد بار با تو گفتگم تو درکنار گیری، باز ایں رمیدہ بو را
مطلب: اے بلبل میں نے سو بار تجھے اس کی وفا کا حال سنایا تو پھر اس رمیدہ بو کو سینے سے لگا لیتی ہے ۔
رمز حیات جوئی جز در تپش نیابی در قلزم آرمیدن ننگ است آبجو را
مطلب: تو زندگی کی رمز تلاش کرتا ہے تو اسے صرف تپش میں پائے گا ۔ ندی کے لیے سمندر میں گم ہو جانا باعث شرم ہے (زندگی نام ہے مسلسل تڑپتے رہنے کا ، خود ی کے لیے یہ بات تو موجب تو نہیں ہے کہ وہ اپنی ہستی کو خدا کی ہستی میں مدغم کر دے ۔
شادم کہ عاشقاں را سوز دوام دادی درمان نیافریدی آزاد جستجو را
مطلب: میں خوش ہوں کہ تو نے عاشقوں کو سوزدوام عطا کیا اور طلب کے روگ کا علاج نہیں پیدا کیا ۔
گفتی مجو وصالم بالاتر از خیالم عذر تو آفریدی اشک بہانہ جو را
مطلب: تو نے کہا میرے وصال کی طلب مت کر میں خیال سے بھی بلند ہوں ۔ بہانہ ڈھونڈنے والے آنسووَں کو تو نے راہ سجھا دی ۔ تیرے اس قول نے میرے اشکوں کو از سر نو رواں ہونے کا ایک نیا عذر مہیا کر دیا یعنی جب تو نے یہ کہا کہ میر ا وصل ناممکن ہے تو میرے آنسو پھر بہنے لگے ۔