(۳۱)
بر جہان دل من تاختنش را نگرید کشتن و سوختن و ساختنش را نگرید
مطلب: میرے دل کی جہان پر اس کی حملہ آوری کے انداز تو دیکھو ۔ اور مجھے مارنے اور جلانے کے بعد مجھے بنانے اور سنوارنے کا عمل بھی دیکھو ۔ مطلب یہ کہ اس کا مارنا اور جلانا میری بہتری کے لیے ہے ۔
روشن از پرتو آن ماہ دلے نیست کہ نیست با ہزار آئنہ پرداختنش را نگرید
مطلب: اس محبوب کے جلووَں سے کوئی دل روشن نہیں ہے ۔ اس بات سے قطع نظر اس کے ہزاروں آئینوں کے سامنے اپنے تخلیق کے عمل کو بھی دیکھو ۔ اس شعر میں یہ بات نمایاں ہوتی ہے کہ اللہ کا نور کائنات کے ذرے ذرے میں موجود ہے ۔
آنکہ یک دست برد ملک سلیمانے چند بافقیران دو جہان باختنش را نگرید
مطلب: وہ محبوب (خدا) جو ایک اشارے پر حضرت سلیمان کی سلطنت جیسی کئی سلطنتیں اپنے دستِ قدرت میں کر لیتا ہے ۔ اسے فقیروں کے حضور دو جہانوں کو ہارنے یا پیش کرنے کے معاملے کو دیکھو ۔ کہ کس طرح بڑے بڑے جاہ و جلال کے مالک بادشاہ فقیروں کے درباروں میں آ کر سر جھکاتے ہیں ۔
آنکہ شبخوں بدل و دیدہ دانایان ریخت پیش نادان سپر انداختنش را نگرید
مطلب: وہ محبوب جس نے دانش مندوں کے دل اور آنکھ پر شب خون مار کر انہیں بے سروسامان کر دیا ہے اسی محبت کو بے عقلوں یعنی عاشقوں کی بزم میں شکست تسلیم کرتے ہوئے دیکھو ۔ مطلب یہ کہ محبوب کو پانے کے لیے عقل کی نہیں عشق کی ضرورت ہوتی ہے ۔
(۳۲)
مرا براہ طلب بار در گل است ہنوز کہ دل بقافلہ و رخت و منزل است ہنوز
مطلب: ابھی تک راہِ طلب میں میرا بوجھ کیچڑ میں پھنسا ہوا ہے ۔ مطلب یہ کہ دل میں طلب تو ہے لیکن سامانِ سفر موجود نہیں ۔ کیونکہ میں تو کارواں ، سامانِ سفر اور منزل کے تصورات میں ہی الجھا ہوا ہوں ۔ حالانکہ منزلِ عشق کے لیے مادی اسباب کی ضرورت ہی نہیں ہوتی ۔
کجاست برق نگاہے کہ خانمان سوزد مرا با معاملہ با کشت و حاصل است ہنوز
مطلب: نگاہِ عشق کی وہ بجلی کہاں ہے جو میرے گھر کے سازو سامان کو جلا کر خاکستر کر دے ۔ میرا معاملہ تو ابھی تک کھیت اور اس کی پیداوار تک محدود ہے ۔ یعنی میں ابھی تک مادی فائدے کے بارے میں سوچ سے باہر نہیں نکل سکا ۔ میری تمنا ہے کہ میرے محبوب کی نگاہِ کرم سے میرے افکار کو نیا رنگ مل جائے ۔
یکے سفینہ این خام را بطوفان دہ ز ترس موج نگاہم بساحل است ہنوز
مطلب: اے خدا! اس ناتجربہ کار ملاح کی کشتی کو ایک بار پھر طوفان کے حوالے کر دے کیونکہ موت کے خوف سے میری نظر ابھی تک ساحل پر جمی ہوئی ہے ۔
تپیدن و نرسیدن چہ عالمے دارد خوشا کسے کہ بدنبال محمل است ہنوز
مطلب: راہ عشق میں تڑپتے رہنا اور منزل مقصود تک نہ پہنچنے میں عجیب طرح کی لذت پائی جاتی ہے ۔ وہ شخص بہت خوش نصیب ہے جو جلوہَ محبوب دیکھے بغیر ابھی تک محمل کے پیچھے پیچھے چلا آ رہا ہے ۔ یعنی وصل محبوب اس کے شوق اور مہمیز کر رہا ہے ۔
کسی کہ از دو جہان خویش را برون نشناخت فریب خوردہ ی این نقش باطل است ہنوز
مطلب: وہ شخص کہ جس نے اپنے آپ کو دونوں جہاں سے برتر نہیں سمجھا ۔ وہ شخص اس جہان فانی کے فریب میں ابھی تک مبتلا ہے یعنی اس فانی دنیا کی رنگینیوں میں گم ہو کر رہ گیا ہے ۔
نگاہ شوق تسلی بجلوہ نشود کجا برم خلشے را کہ در دل است ہنوز
مطلب: اے میری نگاہِ شوق ! تیری تسلی محبوب کے ایک جلوہ سے نہیں ہوتی ۔ اب میں اپنے دل کی اس خلش کو کہاں لے جاؤں (جو بار بار محبوب کے جلووَں کے لیے مجھے بیتاب رکھتی ہے) ۔
حضور یار حکایت دراز تر گردید چنانکہ این ہمہ ناگفتہ دل است ہنوز
مطلب: اپنے محبوب کے سامنے میں نے اپنی داستانِ عشق بیان کی تو وہ طویل سے طویل ہوتی چلی گئی، اسکے باوجود میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ میں نے جو کچھ بھی اپنے محبوب سے کہا وہ بہت کم تھا ۔ کیونکہ میرے دل کی اصل بات تو ابھی تک دل ہی میں ہے ۔
(۳۳)
زمستان را سر آمد روزگاران نواہا زندہ شد در شاخساران
مطلب: موسم سرما ختم ہو گیا ہے اور درختوں کی شاخوں پر نئے گیت زندہ ہو گئے ہیں ۔
گلان را رنگ و نم بخشد ہواہا کہ می آید ز طرف جوئباران
مطلب: ہوائیں پھولوں کو نیا رنگ اور تازگی بخش رہی ہیں ۔ کیونکہ وہ نہروں کی طرف سے (تازہ دم ہو کر ) آ رہی ہیں ۔
چراغ لالہ اندر دشت و صحرا شود روشن تر از باد بہاران
مطلب: لالہ کے پھول جو چراغوں کی طرح روشن ہیں بیابان اور صحرا میں کھلے ہوئے ہیں ۔ اور بہار کی شگفتہ ہوا سے وہ اور بھی زیادہ سرخ و شاداب ہو رہے ہیں ۔
دلم افسردہ تر در صحبت گل گریزد این غزال از مرغزاران
مطلب: ایسے موسم میں (جب چاروں طرف پھول کھلے ہوئے ہیں ) میرا دل ان پھولوں کی صحبت سے اور زیادہ افسردہ ہو گیا ہے ۔ یہ اس ہرن کی طرح ہے جو سبزہ زاروں سے بے نیاز ہے یعنی اسے بیابان پسند ہے ۔
دمے آسودہ با درد و غم خویش دمے نالان چو جوے کوہساران
مطلب: میرے بے قرار دل کی یہ کیفیت ہے کہ کبھی تو اسے اپنے غم اور افسردگی میں کیف محسوس ہوتا ہے اور کبھی وہ پہاڑوں سے اترنے والی ندی کی طرح شور مچانا شروع کر دیتا ہے ۔
ز بیم اینکہ ذوقش کم نگردد نگویم حال دل با رازداران
مطلب: اس ڈر سے کہ میرے دل کا ذوق کہیں کم نہ ہو جائے ۔ میں اپنے دل کی حالت اپنے قریبی رازدار دوستوں سے بھی بیان نہیں کرتا ۔ کیونکہ راز آشکارا ہونے سے عشق کا کیف و سرور باقی نہیں رہتا ۔
(۳۴)
ہواے خانہ و منزل ندارم سر راہم غریب ہر دیارم
مطلب: مجھے گھر کی آرزو ہے اور نہ منزل کی ۔ میں تو ہر شہر میں ایک اجنبی کی طرح گزرتا ہوں اور راستے میں بھٹک رہا ہوں (اہل عشق کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا) ۔
سحر می گفت خاکستر صبا را فسرد از باد این صحرا شرارم
مطلب: علی الصبح میرے جسم کی راکھ نے نرم و لطیف ہوا سے کہا کہ اس صحرا کی ہوا سے میری چنگاریاں بجھ گئی ہیں ۔
گزر نرمک، پریشانم مگردان ز سوز کاروانے یادگارم
مطلب: اے باد صبا مجھ پر آہستہ آہستہ چل اور مجھے پریشان نہ کر ۔ کیونکہ میں تو اس راستے سے گزرے ہوئے کسی کارواں کے سوز کی یادگار ہوں ۔ (کارواں گزرنے کے بعد ماحول پر جو اداسی چھا جاتی ہے) ۔
ز چشم اشک چون شبنم فرو ریخت کہ من ہم خاکم و در رہگزارم
مطلب: میری آنکھوں سے شبنم کی طرح آنسو نیچے جا گرے ۔ جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ میں بھی خاک ہوں اور ابھی ایک مسافر کی مانند ہوں ۔ یعنی میں بھی فانی ہوں ۔
بگوش من رسید از دل سرودے کہ جوے روزگار از چشمہ سارم
مطلب: میرے کانوں میں میرے دل کا یہ نغمہ پہنچا کہ اس زمانے کی ندی میرے چشموں کے پانیوں کا ایک سلسلہ ہے ۔ یعنی یہ زمانہ یہ کائنات انسان ہی کے لیے تخلیق کی گئی ہے ۔
ازل تاب و تب پیشینہ من ابد از ذوق و شوق انتظارم
مطلب: (دل کا یہ کہنا ہے) کہ ابتدائے آفرینش کہ کہانی میری ہی سابقہ چمک دمک ہے اور ابد میرے انتظار کے ذوق و شوق کے باعث ہے ۔ مطلب یہ کہ میں ازل سے ہوں اور ابد تک رہوں گا ۔
میندیش از کف خاکے ، میندیش بجان تو کہ من پایان ندارم
مطلب: اس مٹھی بھر خاک (دل) سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ۔ تیری جان کی قسم میری کوئی حد نہیں میں تو ایک لامحدود چیز ہوں ۔
(۳۵)
از چشم ساقی مست شرابم بے مے خرابم، بے مے خرابم
مطلب: میں تو ساقی میکدہ کی مست آنکھوں سے شراب پی کر مست ہو گیا ہوں میں (ظاہری) شراب پئے بغیر ہی نشہ میں چور ہوں ۔ نشہ میں چور ہوں ۔
شوقم فزوں تر از بے حجابی بینم نہ بینم، در پیچ و تابم
مطلب: اس (محبوب کے) بے حجاب ہو کر میرے سامنے آنے سے میرا شوقِ جنوں کم ہونے کے بجائے اور تیز ہو جاتا ہے ۔ میں اس کی صورت زیبا دیکھوں یا نہ دیکھوں ۔ دونوں صورتوں میں بے چین رہتا ہوں ۔
چون رشتہ شمع آتش بگیرد از زخمہ من تار ربابم
مطلب: جس طرح شمع کا دھاگا آگ دکھانے سے جل اٹھتا ہے ۔ اسی طرح میری مضراب سے رباب کے تار فریاد کرنے لگتے ہیں (میری آہ و فغاں سے میرے عشق کے جذبات اور زیادہ بھڑکنے لگتے ہیں ) ۔
از من بروں نیست منزلگہ من من بے نصیبم راہے نیابم
مطلب: میری منزل عشق مجھ سے باہر تو نہیں ۔ لیکن میں بدقسمت ہوں کہ مجھے کوئی راستہ سجھائی نہیں دیتا ۔
تا آفتابے خیزد ز خاور مانند انجم بستند خوابم
مطلب: اس وقت تک جب مشرق سے آفتاب طلوع ہو ۔ تو نے ستاروں کی طرح مجھے جگا رکھا ہے ۔ جب تک سورج طلوع نہیں ہوتا ستاروں میں روشنی باقی رہتی ہے اور آفتاب کے ظاہر ہونے کے بعد ستارے موجود تو ہوتے ہیں لیکن ان میں چمک باقی نہیں رہتی ۔ اسی طرح جب مجھے تیری معرفت ہو جائے گی تو میں بھی ہونیکے باوجود نہیں ہوں گا ۔ میں معرفت الہٰی میں سما جاؤں گا ۔