Please wait..

غزل

 
موج مضطر خفت بر سنجاب آب
شد افق تا از زیان آفتاب

مطلب: بیقرار موج پانی کے بستر پر سو گئی اور سورج کے غروب ہونے پر افق تاریک ہو گیا ۔ ہر طرف تاریکی چھا گئی ۔

 
از متاعش پارہ ئی دزدید شام
کوکبے چون شاہدے بالاے بام

مطلب: شام نے سورج کے سرمایہ سے ایک ٹکڑا چرا لیا، یہ ٹکڑا ایک ستارہ تھا جو چھت پر کھڑے محبوب کی طرح جلوہ گر تھا ۔

 
روح رومی پردہ ہا را بر درید
از پس کہ پارہ ئی آمد پدید

مطلب: مولانا رومی کی روح آسمان کا پردہ چاک کر کے ایک پہاڑی کے پیچھے سے نمودار ہوئی ۔

 
طلعتش رخشندہ مثل آفتاب
شیب او فرخندہ چون عہد شباب

مطلب: ان کا چہرہ سورج کی مانند روشن تھا اور ان کا بڑھاپا عہدِ جوانی کی طرح آب و تاب رکھتا تھا ۔

 
پیکر روشن ز نور سرمدی
در سراپایش سرور سرمدی

مطلب: ان کا پیکر نورِ سرمدی سے منور تھا اور ان کے سراپا (سر سے پاؤں تک ) سرمدی سرور تھا ۔

 
بر لب او سر پنہان وجود 
بند ہائے حرف و صوت از خود کشود

مطلب: ان کے ہونٹوں پر وجود کے خفیہ راز تھے ۔ انھوں نے الفاظ اور آوازوں کی زنجیریں اپنے اوپر کھول رکھی تھیں ۔

 
حرف او آئینہ ئی آویختہ
علم با سوز دروں آمیختہ

مطلب: ان کے الفاظ یوں بیان ہو رہے تھے جیسے سامنے آئینہ لٹک رہا ہو ۔ ان کے علم میں ان کے باطن کا سوز ملا ہوا تھا ۔ (نہ الفاظ تھے نہ آواز مگر معانی سامنے نظر آ رہے تھے)

 
گفتمش موجود و ناموجود چیست
معنی محمود و نامحمود چیست

مطلب: میں نے ان (رومی) سے پوچھا کہ موجود اور ناموجود کیا ہے اور محمود اور نامحمود کے معانی کیا ہیں

 
گفت موجود آنکہ می خواہد نمود
آشکارائی تقاضاے وجود

مطلب: انھوں نے فرمایا کہ موجود وہ ہے جو اپنی نمود (ظہور یا ظاہر ہونا) چاہتا ہے ۔ اس لیے کہ اپنے آپ کو ظاہر کرنا وجود کا تقاضا ہے ۔

 
زندگی خود را بخویش آراستن
بر وجود خود شہادت خواستند

مطلب: زندگی اپنے آپ کو اپنی نظروں میں آراستہ کرنے کا نام ہے اور اپنے وجود پر گواہی کا طالب ہونا ہے ۔

 
زندہ ای یا مردہ ای یا جان بلب
از سہ شاہد کن شہادت را طلب

مطلب: خدا تعالیٰ نے روز الست انجمن آراستہ کی یا سجائی اور اپنے وجود پر گواہی (شہادت) طلب کی ۔

 
شاہد اول شعور خویشتن
خویش را دیدن بنور خویشتن

مطلب: پہلا گواہ اپنا شعور ہے یعنی اسے اپنے آپ کو اپنے نور سے دیکھنا ہے ۔

 
شاہد ثانی شعور دیگرے
خویش را دیدن بنور دیگرے

مطلب: دوسرا گواہ دوسروں کا شعور ہے یعنی دوسروں کے نور سے اپنے آپ کو دیکھنا ہے ۔

 
شاہد ثالث شعور ذات حق
خویش را دیدن بنور ذات حق

مطلب: اور تیسرا گواہ حق تعالیٰ کا شعور ہے یعنی نورِ حق سے اپنے آپ کو دیکھنا ہے ۔

 
پیش این نور ار بمانی استوار
حی و قائم چون خدا خود را شمار

مطلب: اگر تو اللہ تعالیٰ کے نور کے سامنے قائم و برقرار رہے یا رہ جائے تو اس صورت میں تو خود کو خدا کی طرح حیی و قیوم سمجھ ۔

 
بر مقام خود رسیدن زندگی است
ذات را بے پردہ دیدن زندگی است

مطلب: اپنے مقام پر پہنچنا ہی حقیقی زندگی ہے اور ذات حق کو بے پردہ دیکھنا ہی صحیح زندگی ہے ۔

 
مرد مومن در نسازد با صفات
مصطفی راضی نشد الا بذات

مطلب: مردِ مومن صفات یعنی صفات الہٰی سے موافقت نہیں کرتا (ان پر قناعت نہیں کرتا ) چنانچہ رسول اللہ ﷺ ذات کے سوا صفات پر راضی نہ ہوئے یعنی حضور دیدارِ خداوندی کیے بغیر راضی نہ ہوئے ۔

 
چیست معراج آرزوے شاہدے
امتحانے روبروے شاہدے

مطلب: معراج کیا ہے کسی شاہد، گواہ کی آرزو ہے کہ اس کے روبرو اپنا امتحان کیا جائے ۔

 
شاہد عادل کہ بے تصدیق او
زندگی ما را چو گل را رنگ و بو

مطلب: ایسا شاہدِ عادل کہ جس کی تصدیق کے بغیر ہماری زندگی ایسے ہی ہے جیسے پھول کا رنگ اور خوشبو ہو (یہ رنگ و بو عارضی اور وقتی ہیں ، ناپائیدار ہیں ) ۔

 
در حضورش کس نماند استوار
ور بماند ہست او کامل عیار

مطلب: اس گواہ کے سامنے کوئی بھی استوار نہیں رہتا اور اگر رہ جاتا ہے تو وہ معیار پر پورا اترنے والا ہے یعنی وہ مردِ مومن یا مردِ کامل ہے ۔

 
ذرہ از کف مدہ تابے کہ ہست
پختہ گیر اندر گرہ تابے کہ ہست

مطلب: اگر تو ذرہ ہے تو اپنی چمک کو ہاتھ سے نہ دے بلکہ اس چمک کو اپنی گرہ میں مضبوطی سے باندھ کے رکھ ۔

 
تاب خود را بر فزودن خوشتر است
پیش خورشید آزمودن خوشتر است

مطلب: (اے ذرے) اپنی چمک کو بڑھاتے رہنا ایک اچھی بات ہے اور خود کو سورج کے سامنے آزمانا اچھی بات ہے ۔

 
پیکر فرسودہ را دیگر تراش
امتحان خویش کن موجود باش

مطلب: تو اپنے فرسودہ پیکر کو نئے سرے سے تراش خراش کر اور اپنی آزمائش کر کے صاحب ِ وجود بن جا ۔

 
این چنیں موجود ، محمود است و بس
ورنہ نار زندگی دود است و بس

مطلب: صرف ایسا موجود ہی محمود ہے اور بس ۔ ورنہ زندگی کی آگ محض دھواں ہے اور بس ۔

 
باز گفتم پیش حق رفتن چسان
کوہ و خاک و آب را گفتن چسان

مطلب: میں نے پھر ان سے پوچھا کہ خدا کے سامنے کیونکر یا کس طرح جانا ممکن ہے ۔ اور اس مٹی کے پہاڑ اور پانی کو کیسے توڑا جا سکتا ہے ۔

 
آمر و خالق برون از امر و خلق
ما ز شست روزگاران خستہ حلق

مطلب: آمر و خالق (اللہ) تو امر اور خالق سے باہر ہے جبکہ زمانے کے کانٹے نے ہمارا حلق زخمی کر رکھا ہے ۔ (ہم زمان و مکان کی قید میں ہیں ) ۔

 
گفت اگر سلطان ترا آید بدست
می توان افلاک را از ہم شکست

مطلب: (مولانا رومی نے جواب میں فرمایا) اگر سلطان تیرے ہاتھ آ جائے تو آسمانوں کو توڑا جا سکتا ہے ۔

 
باش تا عریان شود ایں کائنات
شوید از دامان خود گرد جہات

مطلب: تو انتظار کر یہاں تک کہ یہ کائنات تیرے سامنے بے پردہ ہو جائے اور اپنے دامن سے اطراف کی گرد دھو ڈالے ۔

 
در وجود او نہ کم بینی نہ بیش
خویش را بینی ازو او را ز خویش

مطلب: اور تو اس کے وجود میں نہ کوئی کمی دیکھے گا اورنہ زیادتی ۔ تو خود کو اس سے دیکھے گا اور اس کو خود سے دیکھے گا ۔ مطلب یہ کہ کائنات کی حقیقت واضح ہونے پر تجھے معلوم ہو گا کہ زمان و مکان وغیرہ کچھ نہیں سب اللہ ہی اللہ ہے (لا الہ الا اللہ) یوں تیرے اور مولانا کے درمیان حائل پردے اٹھ جائیں گے ۔

 
نکتہ الا بسلطان یاد گیر
ورنہ چون مور و ملخ در گل بمیر

مطلب: تو الا بسلطان کا نکتہ یاد رکھ ، ورنہ چیونٹی اور ٹڈی کی طرح مٹی کے اندر ہی مر جا ۔

 
از طریق زادن اے مرد نکوے
آمدی اندر جہان چار سوے

مطلب: اے نیک آدمی تو پیدائش کے عام طریقے (ماں کے پیٹ سے پیدا ہونا) کی بنا پر اس حدود کی دنیا میں آیا ہے (یہ زمان و مکان کی دنیا ) ۔

 
ہم برون جستن بزادن می توان
بندہا از خود کشادن می توان

مطلب: (جس طرح تو ماں کے پیٹ سے باہر آیا ہے) اسی طرح تو دوبارہ پیدا ہو سکتا ہے یعنی خود کو کائنات کے پیٹ سے باہر نکال سکتا ہے ۔ اور اس نئی پیدائش سے تو کائنات یا زمان و مکان کی خود پر بندھی ہوئی زنجیریں کھول سکتا ہے ۔

 
لیکن ایں زادن نہ از آب و گل است
داند آن مردے کہ او صاحبدل است

مطلب: لیکن یہ نئی پیدائش آب و گل سے نہیں ہے ۔ صاحب دل مرد اس نکتے کو اچھی طرح جانتا ہے ۔

 
آن ز مجبوری است، این از اختیار
آن نہان در پردہ ہا این آشکار

مطلب: وہ پہلی پیدائش (یعنی ماں کے پیٹ والی) مجبوری ہے اور یہ دوسری پیدائش اختیاری ہے ۔ پہلی پیدائش پردوں میں نہاں ہوتی ہے ۔ جبکہ یہ ارادی پیدائش آشکارا (اعلانیہ) ہوتی ہے ۔

 
آن یکے با گریہ این با خندہ ایست
یعنی آن جویندہ این یابندہ ایست

مطلب: پہلی پیدائش تو روتے ہوئے ہوتی ہے اور دوسری ہنستے مسکراتے ہوئے ہوتی ہے ۔ یعنی پہلا ولادت والا بچہ روتا ہے کہ وہ کہاں آ گیا جبکہ دوسری ولادت والا انسان مقصد زندگی پا لینے کے باعث خوش ہوتا ہے ۔

 
آن سکون و سیر اندر کائنات
این سراپا سیر بیرون از جہات

مطلب: وہ پہلی پیدائش کائنات کے اندر سیر و سکون یعنی چلنے پھرنے کا نام ہے جبکہ یہ دوسری ولادت تمام اطراف سے باہر سیر کرنا ہے ۔ یعنی پہلی پیدائش والا تو زمان و مکان ہی کی حدود میں رہتا ہے جبکہ دوسرا اس زمان و مکان سے بے تعلق یا بے نیاز ہو جاتا ہے ۔

 
آن یکے محتاج روز و شب است
وان دگر روز و شب او را مرکب است

مطلب: پہلی میں روز و شب کی محتاجی ہے اور دوسری پیدائش والے کے لیے روز و شب سواری ہے ۔ (پہلے پر کائنات سوار ہے، جبکہ دوسرا کائنات پر سوار ہے ) ۔

 
زادن طفل از شکست اشکم است
زادن مرد از شکست عالم است

مطلب: بچے کا پیدا ہونا ماں کا پیٹ چاک ہونے سے ہے جبکہ مرد یعنی مرد کامل کا پیدا ہونا جہان کے ٹوٹنے سے ہے ۔ بچہ شکست شکم سے وجود میں آتا ہے جبکہ مرد شکست عالم سے پیدا ہوتا ہے ۔

 
ہر دو زادن را دلیل آمد اذان
آن بلب گویند و این از عین جان

مطلب: دونوں کی طرح کی پیدائش پر اذان دلیل ٹھہری ہے ۔ وہ پہلی پیدائش والی اذان ہونٹوں سے اور یہ سراسر جان سے کہی جاتی ہے ۔ گویا دوسری پیدائش والے کی پوری زندگی میں اذان کی روح سما جاتی ہے یہ گویا جانِ بیدار ہے ۔

 
جان بیدارے چو زاید در بدن
لرزہ ہا افتد درین دیر کہن

مطلب: جب کسی بدن میں جان بیدار پیدا ہوتی ہے تو اس سے اس پرانے بتخانہ پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے ۔

 
گفتم این زادن نمی دانم کہ چیست
گفت شانے از شون زندگی است

مطلب: میں نے کہا کہ مجھے علم نہیں کہ یہ دوسری پیدائش کیا ہے جواب میں رومی نے فرمایا کہ یہ زندگی کی مختلف شانوں میں ایک شان ہے ۔ گویا قرآنی تلمیح کے مطابق ذاتِ حق ہر لمحہ ایک نئی شان سے جلوہ گر ہے ۔

 
شیوہ ہاے زندگی غیب و حضور
آن یکے اندر ثبات آن در مرور

مطلب: زندگی کے اندر (طور طریقے) غیب و حضور ہیں ۔ گویا یہ زندگی کے دو رخ ہیں ۔ اس کا ایک رخ غیب (خلوت) ثبات ہے تو دوسرا (جلوت) میں حرکت و گردش ہے ۔

 
گہ بجلوت می گدازد خویش را
گہ بخلوت جمع سازد خویش را

مطلب: کبھی تو وہ (زندگی )خود کو جلوت میں گدازکرتی ہے اور کبھی خلوت میں خود کو جمع کرتی ہے ۔

 
جلوت او روشن از نور صفات
خلوت او مستنیر از نور ذات

مطلب: اس کی جلوت صفات کے نور سے روشن ہے جبکہ اس کی خلوت نورِ ذات سے روشن ہے ۔

 
عقل او را سوے جلوت می کشد
عشق او را سوے خلوت می کشد

مطلب: عقل اسے جلوت کی طرف کھینچتی ہے اور عشق اسے (آدمی کو) خلوت کی طرف کھینچتا ہے ۔

 
عقل ہم خود را بدین عالم زند
تا طلسم آب و گل را بشکند

مطلب: عقل بھی خود کو اس عالم (کائنات) سے نبردآزما ہوتی ہے تاکہ وہ مادی دنیا کے جادو کو توڑ دے (گویا انسانی عقل دنیا کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے مسخر کرنے میں لگی رہتی ہے لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب اس میں جذبہ عشق شامل ہو) ۔

 
می شود ہر سنگ رہ او را ادیب
می شود برق و سحاب او را خطیب

مطلب: (عقل جب کائنات کی حقیقت کی آگاہی کے لیے نکلتی ہے تو ) اس کے راستے کا ہر پتھر اس کا نیا سبق بن جاتا ہے اور آسمانی بجلی اور بادل اس سے خطاب کرنے لگتے ہیں ۔ (گویا کائنات کی ہر شے اس کی اسیر ہو جاتی ہے) ۔

 
چشمش از ذوق نگہ بیگانہ نیست
لیکن او را جراَت رندانہ نیست

مطلب: اس (عقل) کی آنکھ ذوقِ نگاہ سے محروم نہیں ہے لیکن اس میں وہ عشق کی سی جرات رندانہ نہیں ہے ۔

 
پس ز ترس راہ چوں کورے رود
نرم نرمک صورت مورے رود

مطلب: چنانچہ وہ (عقل) راستے کے خوف سے اندھے کی طرح چلتی ہے ۔ اس کی رفتار چیونٹی کی طرح بہت آہستہ آہستہ ہوتی ہے ۔

 
تا خرد پیچیدہ تر بر رنگ و بوست
می رود آہستہ اندر راہ دوست

مطلب: عقل چونکہ رنگ و بو یعنی دنیا میں زیادہ الجھی رہتی ہے اس لیے دوست (اللہ تعالیٰ) کے راستے میں آہستہ آہستہ چلتی ہے ۔

 
کارش از تدریج می یابد نظام
من نہ دانم کے شود کارش تمام

مطلب: اس کا کام بتدریج سے نظام پاتا ہے ۔ میں نہیں جانتا اسکا کام انجام کو کیونکر پہنچے گا(وہ اپنے مقصد کو کب پائے گا) ۔

 
می نداند عشق سال و ماہ را
دیر و زود و نزد و دور راہ را

مطلب: عشق سال و ماہ کو نہیں جانتا ۔ وہ راستے کے دیر و زود اور نزدیک و دور کو نہیں جانتا ۔

 
عقل در کوہے شگافے می کند
یا بگرد او طوافے می کند

مطلب: عقل پہاڑ میں شگاف ڈال دیتی ہے ۔ یا اس کے گرد طواف کرتی رہتی ہے ۔

 
کوہ پیش عشق چون کاہے بود
دل سریع ایسر چون ماہے بود

مطلب: پہاڑ عشق کے سامنے تنکے کی مانند ہے اور عشق سے دل چاند کی طرح تیز رفتار ہوتا ہے ۔ وہ جلدی سے راستے طے کر کے منزلِ مقصود تک پہنچتا ہے ۔ )

 
عشق شبخونے زدن بر لامکان
گور را نادیدہ رفتن از جہان

مطلب: عشق لامکان پر شب خون مارنے کا نام ہے ۔ اور قبر دیکھے بغیر رخصت ہونا ہے ۔ مطلب یہ کہ عشق اگرچہ جسمانی طور پر مر بھی جائے تو قبر میں بھی زندہ رہتا ہے یعنی عشق پر موت طاری نہیں ہوتی ۔

 
زور عشق از باد و خاک و آب نیست
قوتش از سختی اعصاب نیست

مطلب: عشق کا زور و قوت ہوا اور خاک پانی نہیں ہے اور اس کی قوت اعصاب کی سختی سے نہیں ہے ۔ (اس کی قوت کا تعلق جسمانی طاقت کے حوالے سے نہیں ہے) ۔

 
عشق با نان جویں خیبر کشاد
عشق در اندام مہ چاکے نہاد

مطلب: عشق نے جو کی روٹی کھا کر قلعہ خیبر فتح کیا ۔ عشق نے چاند کے جسم میں چاک ڈال دیا، اسے دو ٹکڑے کر دیا ۔ پہلے مصرعے میں حضرت علی کے واقعہ فتح خیبر کی طرف اشارہ ہے ان کی خوراک جو کی روٹی ہوتی تھی ۔ علامہ اقبال نے بال جبریل میں اسی خیال کو یوں پیش کیا ہے : ۔
جسے نانِ جویں بخشی ہے تو نے
اسے بازوئے حیدر بھی عطا کر
دوسرے مصرعے میں رسول اللہ ﷺ کے چاند کے دو ٹکڑے کرنے کے معجز ے کی طرف اشارہ ہے ۔ ان کا تعلق جسمانی قوت سے نہیں ہے بلکہ یہ سب کچھ عشق حقیقی کے جذبہ سے ہی ہوا ۔

 
کلہ ی نمرود بے ضربے شکست
لشکر فرعون بے حربے شکست

مطلب: اس عشق نے نمرود کا جبڑا کسی ضرب کے بغیر توڑ دیا اور جنگ کے بغیر فرعون کے لشکر کو شکست دی(پہلے مصرعے میں حضرت ابراہیم کے حوالے سے اور دوسرے مصرعے میں حضرت موسیٰ کے حوالے سے عشق کی باطنی قوت کی بات کی ہے ) ۔

 
عشق در جان چو بچشم اندر نظر
ہم درون خانہ ہم بیرون در

مطلب: عشق جان روح میں اسی طرح ہے جیسے آنکھ ہوتی ہے جو گھر کے اندر بھی ہے اور گھر کے باہر بھی ۔

 
عشق ہم خاکستر و ہم اخگر است
کار او از دین و دانش برتر است

مطلب: عشق راکھ بھی ہے اور شعلہ بھی ہے اس کا کام دین اور عقل و دانش سے بڑھ کر ہے ۔

 
عشق سلطان است و برہان مبین
ہر دو عالم عشق را زیر نگین

مطلب: عشق سلطان (قوت) بھی ہے اور روشن دلیل بھی ۔ دونوں جہان عشق کے زیر نگیں ہیں (عشق کائنات کو مسخر کر لیتا ہے اور لامکان تک جا پہنچتا ہے ۔ اس کی دلیل کے لیے انبیا کے تصرفات دیکھے جا سکتے ہیں ) ۔

 
لازمان و دوش فردائے ازو
لامکان و زیر و بالاے ازو

مطلب: اگرچہ عشق کا کوئی زمانہ نہیں ہے مگر ماضی و مستقبل اسی سے ہیں ۔ وہ لامکان ہے لیکن پستی و بلندی اسی سے ہے ۔ گویا عشق اس عالم کے وجود میں آنے کا باعث ہے ۔ قرآنی تلمیح کے حوالے سے مراد یہ ہے کہ خدا نے خود کو دیکھنا چاہا تو اس حسن حقیقی نے اپنا عاشق اس کائنات کی صورت میں پیدا کر دیا ۔ اگر یہ نہ ہوتا تو کائنات بھی نہ ہوتی ۔

 
چون خودی را از خدا طالب شود
جملہ عالم مرکب او راکب شود

مطلب: جب عشق خدا سے خودی کا طالب ہوتا ہے تو تمام عالم سواری بن جاتی ہے اور وہ اس کا سوا ر بن جاتا ہے (وہ کائنات کو مسخر کر لیتا ہے ) ۔

 
آشکارا تر مقام دل ازو
جذب این دیر کہن باطل ازو

مطلب: دل کا مقام عشق سے اور زیادہ آشکارا ہو جاتا ہے اور اس قدیم بت خانہ کی کشش اس سے باطل ہو جاتی ہے ۔

 
عاشقان خود را بہ یزدان می دہند
عقل تاویلی بقربان می دہند

مطلب: عاشق خود کو خدا کے سپرد کر دیتے ہیں اور تاویلیں کرنے والی عقل کو قربان کر دیتے ہیں ۔

 
عاشقی از سو بہ بے سوئی خرام
مرگ را بر خویشتن گردان حرام

مطلب: کیا تو عاشق ہے اگر ایسا ہے تو اطراف ہے ۔ لامکان کی طرف چل اور موت کو اپنے اوپر حرام کر لے ، یعنی اس جہان سے بے نیاز ہو کر لامکانی بن جا ۔ اس طرح تو مر کر بھی زندہ یعنی جاودانی رہے گا ۔

 
اے مثال مردہ در صندوق گور
می توان برخاستن بے بانگ صور

مطلب: اے کہ تو قبر کے صندوق میں مردے کی طرح بند ہے ۔ یہ جان لے کہ قبر سے صور کی آواز کے بغیر بھی اٹھا جا سکتا ہے ۔

 
در گلو داری نواہا خوب و نغز
چند اندر گل بنالی مثل چغز

مطلب: تیرے گلے میں تو عمدہ اور خوب یا دلکش نغمے موجود ہیں ۔ تو کب تک مینڈک کی طرح مٹی میں روتا رہے گا ۔ یعنی تو افضل مخلوقات ہے ، تیرے لیے یہ حیوانوں کی سی زندگی بسر کرنا مناسب نہیں ہے ۔

 
بر مکان و بر زمان اسوار شو
فارغ از پیچاک این زنار شو

مطلب: تو زمان ومکان پر سوار ہو جا اور یوں اس زنار کی گرفت سے آزاد ہو جا یعنی تو اس کائنات کو مسخر کر کے اس سے آزاد ہو جا تا کہ تو اپنی خودی کو پہچان سکے ۔

 
تیز تر کن این دو چشم و این دو گوش
ہر چہ می بینی بنوش از راہ ہوش

مطلب: تو اپنی ان دو آنکھوں اور ان دو کانوں کو زیادہ تیز کر ، جو کچھ بھی تو دیکھے اس پر ہوش سے غور و فکر کر ۔

 
آن کسے کو بانگ موران بشنود
ہم ز دوران سر دوران بشنود

مطلب: جو شخص چیونٹیوں کی آواز سن لیتا ہے وہ زمانے سے اس کا بھید بھی سن سکتا ہے ۔ قرآنی تلمیح کے حوالے سے حضرت سلیمان کے واقعہ کی طرف اشارہ ہے انھوں نے چیونٹیوں کی آواز سن لی تھی ۔ صاحبِ خودی میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ مشاہدہ کی جانے والی ہر شے کی بات سن لیتا ہے ۔

 
آن نگاہ پردہ سوز از من بگیر
کو بچشم اندر نمی گردد اسیر

مطلب: تو مجھ (رومی) سے پردوں کو جلانے والی وہ نگاہ حاصل کر جو آنکھوں میں قید نہیں رہتی ۔ (راز ہائے درون پر وہ دیکھ لیتی ہے ) ۔

 
آدمی دید است باقی پوست است
دید آن باشد کہ دید دوست است

مطلب: آدمی فقط نظر ہے باقی جو کچھ ہے وہ اس کا چھلکا ہے اور نگاہ ہے جو دوست (حق تعالیٰ) کا دیدار کرے ۔

 
جملہ تن را در گداز اندر بصر
در نظر رو در نظر رو در نظر

مطلب: تو اپنے سارے بدن کو نگاہ میں پگھلا دے ۔ تو نظر میں چل یعنی نظر پیدا کر تو نظر پیدا کر ، نظر پیدا کر ۔ گویا تو اپنے سارے جسم کو بصیرت میں تبدیل کر لے ۔ وہ اس لیے کہ انسان سراپا نظر یا بصر ہے ۔ باقی جو کچھ ہے وہ کھال کی مانند ہے ۔

 
تو ازیں نہ آسمان ترسی مترس
از فراخاے جہان ترسی مترس

مطلب: کیا تو ان نو آسمانوں سے ڈرتا ہے نہ ڈر ۔ کیا تو دنیا کی وسعت سے ڈرتا ہے نہ ڈر ۔ یعنی اگر تو سراپا نظر بن جائے تو ان کو مسخر کیا جا سکتا ہے ۔ اس لیے ان سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔

 
چشم بکشا بر زمان و برمکان
ایں دو یک حال است از احوال جان

مطلب: تو زمان پر اور مکان پر نظر ڈال ۔ یہ دونوں جان کے حالات میں سے ایک حال ہیں ۔

 
تانگہ از جلوہ پیش افتادہ است
اختلاف دوش و فردا زادہ است

مطلب: چونکہ نگاہ جلوے کی تاب نہ لانے کی قوت نہیں رکھتی اسی باعث اس نے گزرے ہوئے کل اور آنے والے کل کا اختلاف پیدا کر رکھا ہے ۔ علامہ ہی کے لفظوں میں حقیقت حال یہ ہے ۔
نہ ہے زماں نہ مکاں لا الہ الا اللہ زمان و مکان کا کوئی حقیقی وجود نہیں ہے ۔ صرف اور صرف اس ذات باری تعالیٰ کا وجود ہے جو کائنات کی ہر شے میں سمایا ہوا ہے ۔

 
دانہ اندر گل بظلمت خانہ ئی
از فضاے آسماں بیگانہ ئی

مطلب: مٹی کے اندر دانہ زمین کی تاریکی میں ہونے کے باعث آسمان کی فضا سے بیگانہ و بے خبر ہوتا ہے ۔ اسے کچھ خبر نہیں ہوتی کہ زمین کے باہر کیا کچھ ہے ۔

 
ہیچ می داند کہ در جائے فراغ
می توان خود را نمودن شاخ شاخ

مطلب: کیا وہ دانہ، مذکورہ حالت میں کچھ جانتا ہے کہ مٹی سے باہر وسیع جگہ پر خود کو درخت کی شکل میں یا شاخ در شاخ نمودار کیا جا سکتا ہے یعنی وہ اگ کر زمین سے باہر آ جائے تو وہ درخت کی صورت اختیار کر سکتا ہے ۔

 
جوہر او چیست یک ذوق نموست
ہم مقام اوست ایں جوہر ہم اوست

مطلب: اس دانے کا جوہر کیا ہے خود کو نمودار کرنے کا ایک ذوق ہے ۔ یہی جوہر اس کا مقام بھی ہے اور یہی وہ خود ہے ۔

 
اے کہ گوئی محمل جان است تن
سر جاں را در نگر بر تن متن

مطلب: تو جو یہ کہتا ہے کہ جسم، روح کا محمل ہے ۔ تو تو ذرا روح کے بھید کو دیکھ (اس پر غور کر اور خواہ مخواہ ) تن پر مت اکڑ ۔

 
محملے نے حالے از احوال اوست
محملش خواندن فریب گفتگوست

مطلب: جسم، روح کا محمل نہیں ہے بلکہ اس روح کے احوال میں سے ایک حال ہے ۔ یا اس کی شانوں میں سے ایک شان ہے ۔ اسے اس کا محمل کہنا محض فریب گفتگو ہے ۔ (یہ نظریہ اہل عقل کا ہے اور اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے ) ارتباط حرف و معنی ، اختلاطِ جان و تن ۔

 
چیست جاں  جذب و سرور و سوز و درد
ذوق تسخیر سپہر گرد گرد

مطلب: جان (روح) کیا ہے جذب و سرور اور سوز و درد کا نام ہے ۔ اور یہ روح گردش کرنے والے آسمان کو مسخر کرنے کا ذوق ہے ۔ آسمان سے مراد پوری کائنات کی قوتیں ہیں ۔

 
چیست تن با رنگ و بو خو کردن است
با مقام چار سو خو کردن است

مطلب:جسم (بدن ) کیا ہے یہ رنگ و بو کی دنیا سے موافقت کرنے کا نام ہے ۔ اور یہ (جسم) چار اطراف والے جہان سے بنا کر رکھنے کا نام ہے ۔

 
از شعور است ایں کہ گوئی نزد و دور
چیست معراج انقلاب اندر شعور

مطلب: یہ جو تو نزدیک اور دور کی بات کرتا ہے تو اس کا تعلق شعور سے ہے ۔ معراج کیا ہے معراج شعور میں انقلاب پیدا ہونے کا نام ہے ۔

 
انقلاب اندر شعور از جذب و شوق
وا رہاند جذب و شوق از تحت و فوق

مطلب:شعور کے اندر انقلاب جذب و شوق عشق سے پیدا ہوتا ہے ۔ جذب و شوق انسان کو پستی و بلندی سے آزاد کر دیتا ہے ۔ اگر عشق کے نتیجے میں شعور انقلاب پذیر ہو جائے تو یہ نزد و دور کا تصور ختم ہو جائے ۔ اسی انقلاب کا نام معراج ہے ۔ اس میں بالواسطہ حضور اکرم کے معراج کو جانے کا ذکر ہے ۔ حضور انسان تھے لیکن اسی انقلاب کے نتیجے میں آپ عالم لاہوت میں پہنچ کر محبوب حقیقی کے دیدار سے مشرف ہو کر زمین پر لوٹ آئے ۔

 
این بدن با جان ما انبار نیست
مشت خاکے مانع پرواز نیست

مطلب: یہ بدن ہماری روح کے ساتھ شریک نہیں ہے ۔ یہ مٹی کی مٹھی انسانی بدن روح کی پرواز میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے ۔