Please wait..

محاورہ علم و عشق
علم و عشق کا مکالمہ

علم

 
نگاہم راز دار ہفت و چار است
گرفتار کمندم روزگار است

مطلب: علم میری نگاہ ساتوں ولایتوں (ساری کائنات) اور چاروں عناصر (آگ ، پانی، مٹی، ہوا) یعنی زمین و آسمان دونوں کی رازدار ہے ۔ زمانہ میرے پھندے میں پھنسا ہوا ہے ۔

 
جہان بینم باین سو باز کردند
مرا با آنسوی گردون چہ کار است

مطلب: خداوند نے میری آنکھیں اس رخ پہ کھولیں مجھے آسمان کے ادھر سے کیا کام ہے( میں آسمان کے نیچے جو جہان ہے اس سے باخبر ہوں ) ۔

 
چکد صد نغمہ از سازی کہ دارم
ببازار افکنم رازی کہ دارم

مطلب: میرے ساز سے سینکڑوں نغمے پھوٹتے ہیں ۔ میں اپنا ہر راز بازار میں پھینک آتا ہوں (عام کر دیتا ہوں ) ۔

عشق

 
ز افسون تو دریا شعلہ زار است
ہوا آتش گداز و زہر دار است

مطلب: ترے شعبدے سے دریا شعلہ زار ہے (دریا کے پانی میں شعلہ پیدا ہوتا ہے) ۔ ہوا آگ چھوڑتی ہے اور زہریلی ہے ۔ (اشارہ ہے ان بحری جہازون اور بم کے گولوں کی طرف جن کی بدولت پانی سے شعلے بلند ہوئے اور ہوا زہریلی ہو گئی) ۔

 
چو با من یار بودی نور بودی
بریدی از من و نور تو نار است

مطلب: تو جب میرا دوست تھا تو نور تھا ۔ مجھ سے الگ ہوا تو اب تیرا نور بھی نار بن گیا ہے(تیرا وجود مفید ہونے کے بجائے مضر ہو گیا ۔ تباہ کن آلات حرب علم ہی کی بدولت عالم وجود میں آئے) ۔

 
بخلوت خانہ ی لاہوت زادی
ولیکن در نخ شیطان فتادی

مطلب: تو نے خلوت خانہ لاہوت میں جنم لیا (جس کا تو آج منکر ہے) ۔ لیکن تو شیطان کے پھندے میں پھنس گیا ۔

 
بیا این خاکدان را گلستان ساز
جہان پیر را دیگر جوان ساز

مطلب: آ اس خاکدان دنیا کو گلزار بنا دے ۔ بوڑھی دنیا کو پھر سے جوان کر دے ۔

 
بیا یک ذرہ از درد دلم گیر
تہ گردون بہشت جاودان ساز

مطلب: آ میرے درد دل سے ایک ذرہ لے آسمان تلے ہمیشہ کی جنت بنا دے ۔

 
ز روز آفرینش ہمدم استیم
ہمان یک نغمہ را زیر و بم استیم

مطلب: اے علم! اس حقیقت کو فراموش مت کر کہ ہم ازل کے دن سے دونوں ساتھی ہیں ۔ ہم ایک ہی نغمے کا اتار چڑھاوَ ہیں ۔ علم بے عشق اور عشق بے علم دونوں غیر مفید ہیں ۔ اس تصور کا مرشد رومی کا یہ شعر ہے ۔
علم را بر تن زنی مارے بود
علم را بر دل زنی یارے بود