Please wait..

غزل نمبر۳۹

 
خاکیم و تند سیر مثال ستارہ ایم
در نیلگوں یمے بتلاش کنارہ ایم

مطلب: ہم مٹی ہیں مگر ستارے کے طرح تیز رفتار ہیں (ہماری روح ستاروں کی طرح سیار ہے) ۔ ایک بے کراں نیلے سمندر میں کنارہ ڈھونڈ رہے ہیں ۔

 
بود و نبود ماست ز یک شعلہ حیات
از لذت خودی چو شرر پارہ پارہ ایم

مطلب: ہمارا وجود و عدم ایک ہی شعلہ حیات سے ہے ہم خودی کی لذت سے چنگاریوں کی طرح پارہ پارہ ہیں (ہر روح اللہ تعالیٰ کی روح میں سے پھونکی ہوئی ہے) ۔

 
با نوریان بگو کہ ز عقل بلند دست
ما خاکیان بدوش ثریا سوارہ ایم

مطلب: فرشتوں کو بتا دے کہ اونچی پہنچ رکھنے والی عقل سے ہم زمین والوں نے ثریا کے کاندھے پر سواری کر رکھی ہے ۔

 
در عشق غنچہ ایم کہ لرزد ز باد صبح
در کار زندگی صفت سنگ خارہ ایم

مطلب: عشق کے معاملہ میں ہم اس غنچہ کی مانند ہیں جو صبح کی ہوا سے لرز جاتا ہے ۔ زندگی کے کاروبار میں ہم سخت پتھر کی مانند مضبوط ہیں ۔

 
چشم آفریدہ ایم چو نرگس درین چمن
رو بند برکشا کہ سراپا نظارہ ایم

مطلب: ہم نے اس چمن میں نرگس کی طرح آنکھ پیدا کی ہے (دیکھنے کی صلاحیت پیدا کی ہے) نقاب اٹھا کہ ہم سراپا نظر ہیں (ایک جھلک ہمیں دکھا دے کیونکہ ہم اشتیاق دید میں سراپا نظر بنے ہوئے ہیں ) ۔