Please wait..

افکار انجم
ستاروں کے خیالات

 
شنیدم کوکبی با کوکبی گفت
کہ در بحریم و پیدا ساحلی نیست

مطلب: میں نے ایک ستارے کو دوسرے سے یہ کہتے سنا کہ ہم ایسے سمندر میں ہیں جس کا کنارہ اوجھل ہے ۔

 
سفر اندر سرشت ما نہادند
ولی این کاروان را منزلی نیست

مطلب: خدا نے ہماری سرشت میں مسافرت رکھی لیکن اس قافلے کی کوئی منزل نہیں ۔

 
اگر انجم ہمانستی کہ بود است
ازین دیرینہ تابیہا چہ سود است

مطلب: اگر ستارے جیسے تھے ویسے ہی ہیں تو اس سدا کی چمک دمک کا کیا حاصل ہے ۔

 
گرفتار کمند روزگاریم
خوشا آنکس کہ محروم وجود است

مطلب: ہم زمانے کی کمند میں جکڑے ہوئے ہیں اچھا ہے وہ جو وجود سے محروم ہے ۔

 
کس این بار گران را بر تنابد
ز بود ما نبود جاودان بہ

مطلب: یہ بوجھ کوئی نہیں ڈھو سکتا ہمارے ہونے سے ہمیشہ کا نہ ہونا اچھا ہے ۔

 
فضای نیلگونم خوش نیاید
ز اوجش پستی آن خاکدان بہ

مطلب: مجھے یہ آسمانی فضا خوش نہیں آتی اس کی بلندی سے اس دنیا کی پستی اچھی ہے ۔

 
خنک انسان کہ جانش بیقرار است
سوار راھوار روزگار است

مطلب: انسان کے کیا کہنے کہ جس کی جان کو کہیں قرار نہیں ہے وہ زمانے کے تیز رفتار گھوڑے پر سوار ہے ۔

 
قبای زندگی بر قامتش راست
کہ او نو آفرین و تازہ کار است

مطلب: زندگی کی قبا اس کے بدن پر موزون ہے ۔ کیونکہ وہ نت نئی چیزیں گھڑنے والا اور تازہ کار (نئی دریافتیں کرتا) ہے ۔ اس نظم میں اقبال نے ستاروں کی زبان سے حضرت انسان کی عظمت اور اس کے اشرف المخلوقات ہونے کو واضح کیا ہے کہ اس میں تخلیق کی قوت پائی جاتی ہے اور اس وصف میں کوئی مخلوق اس کی ہمسری نہیں کر سکتی ۔