Please wait..

در بیان اینکہ خودی از عشق و محبت استحکام می پذیرد
( اس بیان میں کہ خودی عشق و محبت سے مضبوط ہوتی ہے)

 
نقطہ ی نوری کہ نام او خودی است
زیر خاک ما شرار زندگی است

مطلب: نور وہ نقطہ جس کا نام خودی ہے ہماری خاک (بدن) کے اندر زندگی کی ایک چنگاری ہے گویا ہماری زندگی خودی پر منحصر ہے ۔ یہ ایک ایسا نقطہ نور ہے جس کی بدولت انسان کی زندگی منور ہوتی چلی جاتی ہے ۔ جب انسان اپنی خودی سے یعنی اپنی ذات کی حقیقت سے آگاہ ہو جاتا ہے تو اس میں ایسی قوت پیدا ہو جاتی ہے جس کی بنا پر وہ بڑے بڑے کارنامے سرانجام دیتا ہے ۔

 
از محبت می شود پایندہ تر
زندہ تر، سوزندہ ، تابندہ تر

مطلب: وہ محبت سے زیادہ دیر تک رہنے والی اور زیادہ زندہ، زیادہ جلانے والی اور زیادہ چمکنے والی بن جاتی ہے ۔

 
از محبت اشتعال جوہرش
ارتقاے ممکنات مضمرش

مطلب: محبت ہی سے اس کی جوہر میں نکھار پیدا ہوتا ہے اور اس میں پوشیدہ امکانات یعنی قوتوں کی نشوونما ہوتی ہے ۔

 
فطرت او آتش اندوزد ز عشق
عالم افروزی بیاموزد ز عشق

مطلب: خودی کی فطرت عشق ہی سے حرارت حاصل کرتی ہے اور عشق ہی سے دنیا کو روشن اور منور کرنے کا طریقہ سیکھتی ہے ۔

 
عشق را از تیغ و خنجر باک نیست
اصل عشق از آب و باد و خاک نیست

مطلب: عشق کو تلوار اور خنجر سے کوئی خوف نہیں ہے ۔ عشق کی اصل پانی، آگ ، ہوا اور خاک یعنی عناصر اربعہ سے نہیں ہے ۔

 
از نگاہ عشق خارا شق بود
عشق حق آخر سراپا حق بود

عشق کی نگاہ سخت پتھر کو بھی توڑ دیتی ہے ۔ حق کا عشق آخر کار خود حق کی مکمل صورت بن جاتا ہے(حق کے ساتھ عشق آخر خود حق بن جاتا ہے) ۔

 
عاشقی آموز و محبوبے طلب
چشم نوحے قلب ایوبے طلب

مطلب: تو بھی عاشقی سیکھ اور کوئی محبوب تلاش کر، کسی نوح کی آنکھ اور کسی ایوب کا صبر مانگ ۔ نوح کی آنکھ یہاں تلمیح ہے ۔ حضرت نوح علیہ السلام کو کفار سے سخت قسم کا واسطہ پڑا ۔ وہ اللہ کے حضور گڑگڑا کر روتے رہے ۔ اس سے ان میں گداز دل پیدا ہوا، جو عشق میں یا مقصد و محبوب تک رسائی کے لیے بڑا ضروری ہے ۔ حضرت ایوب علیہ السلام کا صبر مشہور ہے سخت سے سخت آزمائش میں بھی انھوں نے صبر سے کام لیا ۔ گویا علامہ ان دو حوالوں سے سراپا عمل بننے، دل میں گداز پیدا کرنے اور ہر آزمائش میں صبر کی بدولت پورا اترنے کی تلقین فرماتے ہیں ۔ علامہ ہی کا ایک شعر ہے:
تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے تیرا آئینہ ہے وہ آئینہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں

 
کیمیا پیدا کن از مشت گلے
بوسہ زن بر آستان کاملے

مطلب: تو مٹی کی ایک مٹھی سے کیمیا پیدا کر، کسی کامل انسان کے آستانے پر بوسہ دے ۔

 
شمع خود را ہمچو رومی بر فروز
روم را در آتش تبریز سوز

مطلب: اپنی شمع کو پیر رومی کی طرح روشن کر، روم کو تبریز کی آگ میں جلا دے ۔مولانا روم یا رومی ساتویں صدی ہجری تیرھویں صدی عیسوی کے بہت بڑے عالم و صوفی گزرے ہیں ۔ شروع میں انھوں نے درس و تدریس کا پیشہ اپنایا، لیکن ایک موقع پر جب ان کی ملاقات شمس تبریزی جیسے صاحب باطن درویش سے ہوئی تو اس ملاقات نے ان کی کایا ہی پلٹ کر رکھ دی اور وہ ظاہری علوم اور درس و تدریس سے الگ ہو کر باطن کی طرف متوجہ ہو گئے ۔ علامہ کے نزدیک رومی سراپا عشق کی علامت ہیں ۔ علامہ اسی حوالے سے فرماتے ہیں کہ جس طرح مولانا روم نے شمس تبریزی سے مل کر اپنی ذات کو بھلا دیا اور سراپا عشق بن گئے تو بھی کسی مرشد کامل تلاش کر کے خود کو بھی ایسے ہی مقام پر لے جا ۔

 
ہست معشوقے نہان اندر دلت
چشم اگر داری بیا بنمائمت

مطلب: اے مسلمان تیرے دل میں بھی ایک معشوق پوشیدہ ہے اگر تو آنکھ رکھتا ہے ( تو بصیرت رکھتا ہے) تو آ، میں تجھے دکھا تا ہوں ۔ مسلمانوں کی حضور اکرمﷺ سے دوری کا نتیجہ علامہ نے اپنی ایک دو بیتی میں اس طرح بتایا ہے

 
شبی پیش خدا بگربستم زار مسلمانان چرا زاند و خوارند
ندا آمد نمی دانی کہ ایں قوم دلی دارند و محبوبی ندارند

مطلب: اس رات میں خدا کے حضور بہت رویا کہ مسلمان کس وجہ سے ذلیل و خوار ہیں آواز آئی تجھے علم نہیں کہ اس قوم کے پاس دل تو ہے لیکن ان کا کوئی محبوب نہیں ہے)

 
عاشقان او ز خوبان خوب تر
خوشتر و زیبا تر و محبوب تر

مطلب: اس (حضور) کے عاشق حسینوں سے بھی کہیں زیادہ حسین، عمدہ ، زیبا اور محبوب ہوتے ہیں ۔ آپ سے پیار کرنے والے زیادہ حسین اور خوبصورت ہو جاتے ہیں ۔

 
دل ز عشق او توانا می شود
خاک ہمدوش ثریا می شود

مطلب : دل اس (حضور) کے عشق سے قوی اور مضبوط ہوتا ہے اور (مرتبے میں ) خاک بھی ثریا کے ہم پلہ ہو جاتی ہے (ثریا کے برابر پہنچ جاتا ہے) ۔

 
خاک نجد از فیض او چالاک شد
آمد اندر وجد و بر افلاک شد

مطلب: نجد کی خاک اس (حضور) کے فیض سے حرکت پذیر ہو گئی (چست و چالاک اور ہنر مند بن گئی) وہ (خاک) اس وجد کی کیفیت طاری ہوئی اور وہ آسمانوں پر جا پہنچی ۔

 
در دل مسلم مقام مصطفی است
آبروئے ما ز نام مصطفی است

مطلب: مصطفی ﷺ کا مقام مسلمان کے دل میں ہے ۔ ہماری عزت و آبرو مصطفی ﷺ کے نام مبارک سے ہے ۔

 
طور موجے از غبار خانہ اش
کعبہ را بیت الحرم کاشانہ اش

مطلب: کوہ طور حضور کی دولت خانے کی گرد کی ایک لہر ہے اور آپ کا کاشانہ مبارک کعبہ کے لیے بیت الحرم (عزت کا گھر) کی حیثیت رکھتا ہے ۔

 
کمتر از آنے ز اوقاتش ابد
کاسب افزایش از ذاتش ابد

مطلب: ابد حضور اکرم کے اوقات کے ایک پل سے بھی کمتر ہے ۔ ابد حضور اکرم کی ذات مبارک سے فیضان حاصل کرنے والا ہے ۔

 
بوریا ممنون خواب راحتش
تاج کسریٰ زیر پاے امتش

مطلب: چٹائی حضور اکرم کی راحت بھری نیند کی احسان مند ہے ۔ کسریٰ (ایران کا بادشاہ) کا تاج حضور اکرم کی امت کے پاؤں تلے ہے ۔

 
در شبستان حرا خلوت گزید
قوم و آئین و حکومت آفرید

مطلب: حضور اکرم نے غار ِ حرا کے شبستان (وہ جگہ جہاں رات بسر کی جائے) میں خلوت گزینی اختیار کی (اور اس طرح) ایک قوم ایک (عظیم) آئین اور ایک (عظیم) حکومت دنیا کو دی ۔

 
ماند شبہا چشم او محروم نوم
تا بہ تخت خسروی خوابید قوم

مطلب: حضور اکرم کی مبارک آنکھیں کئی کئی راتیں نیند سے محروم رہیں ۔ جب کہیں قوم شاہی (امت) تخت پر آرام سے سوئی(آرام کیا) ۔

 
وقت ہیجا تیغ او آہن گداز
دیدہ ی او اشکبار اندر نماز

مطلب : لڑائی (مرا د جہاد) کے وقت حضور اکرم کی تلوار لوہے کو پگھلا دینے والی تھی جب کہ نماز میں حضور کی آنکھیں آنسووَں سے پر رہتی تھیں (آنسووَں کی جھڑی لگ جاتی تھی) ۔

 
در دعائے نصرت آمین تیغ او
قاطع نسل سلاطین تیغ او

مطلب: جب رسول اللہ ﷺ خدا سے (کافروں کے خلاف) فتح و نصرت کے لیے دعا فرماتے تو رسول اللہ کی تلوار آمین بن جاتی ۔ رسول اللہ کی تلوار نے بادشاہوں کی نسلوں کا سلسلہ کاٹ کر رکھ دیا ۔

 
در جہان آئین نو آغاز کرد
مسند اقوام پیشین در نورد

مطلب: رسول اللہ نے اس دنیا میں نئے آئین اور نئے نظام کی بنیاد رکھی ۔ گزشتہ قوموں کی مسندکو حضور نے الٹ کر رکھ دیا ۔

 
از کلید دین در دنیا کشاد
ہمچو او بطن ام گیتی نزاد

مطلب: رسول اللہ نے دین کی چابی سے دنیا کا دروازہ کھولا ۔ رسول اللہ جیسی شخصیت دنیا کی کسی ماں نے پیدا نہیں کی ۔

 
در نگاہ او یکے بالا و پست
با غلام خویش بر یک خوان نشست

مطلب: رسول اللہ کی نگاہ مبارک میں بلند و پست یکساں تھے(سب لوگ ایک درجہ رکھتے تھے) ر سول اللہ اپنے غلام کے ساتھ ایک ہی دستر خوان پر کھانا کھانے بیٹھتے ۔

 
در مصافے پیش آں گردون سریر
دختر سردار طے آمد اسیر

مطلب: ایک جنگ میں اس بلند مرتبہ ذات رسول اللہ کے سامنے طے قبیلے کے سردار کی بیٹی کو بطور قیدی کے پیش کیا گیا ۔ جب رسول اللہ نے اس لڑکی کو بے پردہ دیکھا تو اپنی مبارک چادر اس کے سر پر ڈال دی ۔

 
پائے در زنجیر و ہم بے پردہ بود
گردن از شرم و حیا خم کردہ بود

مطلب: اس کے پاؤں میں بیڑیاں تھیں اور اس کے لیے پردے کا کوئی سامان نہ تھا بے پردہ تھی ۔ شرم و حیا کے باعث اس کی گردن جھکی ہوئی تھی ۔

 
دخترک را چون نبی بے پردہ دید
چادر خود پیش روے او کشید

مطلب: نبی نے اس لڑکی کو بے پردہ دیکھا تو اپنی مبارک چادر اس کے سر پر ڈال دی ۔

 
ما از آن خاتون طے عریان تریم
پیش اقوام جہاں بے چادریم

مطلب: ہم قبیلہ طے کی اس خاتون سے بھی زیادہ عریاں ہیں ۔ دنیا کی قوموں کے سامنے بے چادر (بے عزت ) ہیں ۔

 
روز محشر اعتبار ماست او
در جہاں ہم پردہ دار ماست او

مطلب: قیامت کے روز رسول اللہ ہماری آبرو اور عزت ہیں ۔ دنیا میں بھی رسول اللہ ہمارے پردہ دار ہیں ۔ رسول اللہ شفیع المذنبیں ہیں ۔ قیامت کے روز رسول اللہ اہل ایمان کی شفاعت فرمائیں گے تا کہ ان کی بخشش کا سامان ہو سکے، یوں ان کی ساکھ رہ جائے گی وہ ذلت و رسوائی سے بچ جائیں گے ۔

 
لطف و قہر او سراپا رحمتے
آن بیاران این با عدا رحمتے

مطلب: رسول اللہ کی مہربانی اور سختی دونوں مکمل طور پر ایک رحمت ہیں ۔ یعنی وہ لطف و مہربانی دوستوں اور ساتھیوں (اپنوں ، صحابہ کرام) کے لیے اور یہ یعنی قہر اور سختی دشمنوں کے لیے سراپا رحمت ہے ۔

 
آن کہ بر اعدا در رحمت کشاد
مکہ را پیغام لاتثریب داد

مطلب: وہ ذات والا صفات کہ جس نے دشمنوں کے لیے رحمت و شفقت کا دروازہ کھول دیا اس نے مکہ والوں لا تثریب کا پیغام دیا (معانی کی بشارت دی) ۔

 
ما کہ از قید وطن بیگانہ ایم
چون نگہ نور دو چشمیم و یکیم

مطلب: ہم (مسلمان) جو وطن کی قید یعنی جغرافیائی حدود سے نا آشنا ہیں ، ہم تو دو آنکھوں کا نور ہیں لیکن نگاہ کی طرح ایک ہیں ۔