Please wait..

(۴۶)

 
انجم بگریبان ریخت این دیدہ تر ما را
بیروں ز سپہر انداخت این ذوق نظر ما را

مطلب: میری اس اشکوں سے بھری آنکھوں نے رو رو کر میرے دامن میں ستارے گرا دیئے ہیں ۔ ان قیمتی اشکوں کی وجہ سے مجھ میں ایسا ذوق نظر پیدا ہوا کہ اس نے مجھے آسمانوں کے اس پار پھینک دیا ۔

 
ہر چند زمیں سائیم برتر ز ثریائیم
دانی کہ نمی زیبد عمری چو شرر ما را

مطلب: بلاشبہ ہم زمین پر چلنے والے ہیں ۔ لیکن حقیقت میں ہمارا مقام و مرتبہ ثریا سے بھی بلند ہے ۔ تجھے یہ خبر ہے کہ ہمیں چنگاری جیسی عارضی زندگی پسند نہیں (ہم تو جاودانی ہیں ) ۔

 
شام و سحر عالم از گردش ما خیزد
دانی کہ نمی سازد این شام و سحر ما را

 
این شیشہ گردوں را از بادہ تہی کردیم
کم کاسہ مشو ساقی! مینائے دگر ما را

مطلب: اس جام میں جتنی شراب موجود تھی ہم نے پی کر خالی کر دیا ہے ۔ اے ساقی ہمیں شراب پلانے سے گریز نہ کر ایک اور صراحی لے آ تاکہ ہماری پیاس کا کچھ تو بندوبست ہو (معرفت الہٰی کی شراب سے عاشق کبھی سیر نہیں ہوتے ) ۔

 
شایان جنون ما پہناے دو گیتی نیست
این راھگزر ما را آن راھگزر ما را

مطلب: دونوں جہانوں کی وسعتیں ہمارے جنوں کے لائق نہیں ہیں ۔ یہ جہان بھی ہمارے لیے ایک راہ گزر کی طرح ہے اور ہم مسافر ہیں اور وہ جہاں بھی ہمارے لیے ایک راہ گزر ہی ہے ۔ (کیونکہ انسان اپنی صلاحیتوں کے لحاظ سے دونوں جہانوں سے بالاتر ہے) ۔

(۴۷)

 
خاور کہ آسمان بہ کمند خیال اوست
از خویشتن گسستہ و بے سوز آرزوست

مطلب: اہل مشرق کہ جن کی فکر کی کمند میں آسمان ہے محض خیال پرستی کرتے ہیں ۔ (بے عمل ہیں ) یہ اپنے آپ سے بے خبر اور آرزو کے سوز سے خالی ہیں ۔ ہمیشہ غیروں کے محتاج نظر آتے ہیں ۔

 
در تیرہ خاک او تب و تاب حیات نیست
جولان موج را نگران از کنار جوست

مطلب: ان کی سیاہ (علم سے عاری) مٹی میں زندگی کی تڑپ اور حرارت موجود نہیں ہے وہ ندی (سمندر) کے کنارے کھڑے ہو کر اس کی لہر کی اچھال کو دیکھ رہے ہیں (آرام طلب ہو چکے ہیں ) ۔

 
بت خانہ و حرم ہمہ افسردہ آتشے
پیر مغان شراب ہوا  خوردہ در سبوست

مطلب: بت خانہ ہو یا حرم کعبہ، سب میں آتشِ شوق ٹھنڈی ہو چکی ہے ۔ (دونوں اپنے اپنے اصولوں سے بیگانہ ہو چکے ہیں ) ۔ پیر مغاں کی صراحی میں جو شراب ہے کھلی ہوا میں پڑی رہنے کے باعث بدذائقہ ہو چکی ہے ۔

 
فکر فرنگ پیش مجاز آورد سجود
بیناے کور و مست تماشاے رنگ و بوست

مطلب: (مشرق کے برعکس) اہلِ یورپ کی حکمت و دانش مجاز کے سامنے سجدہ ریز ہے (حقیقت سے نا آشنا ہے) وہ چشمِ بینا تو رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود اندھے ہیں (مادہ پرستی میں گم ہو کر حقیقت سے دور جا چکے ہیں ) ۔

 
گردندہ تر ز چرخ و ربایندہ تر ز مرگ
از دست او بدامن ما چاک بے رفوست

مطلب: وہ (اہل یورپ) آسمان سے زیادہ تیزی سے گردش میں ہیں اور موت سے بڑھ کر لٹیرے ہیں ۔ ان کے ہاتھوں سے (دورِ غلامی سے) ہمارے گریبان میں ایسے چاک پڑ چکے ہیں جنہیں سیا نہیں جا سکتا (اہل یورپ نے جتنا اقوام مشرق کو تباہ و برباد کیا ہے اتنا تو قدرتی آفات اور موت نے بھی نہیں کیا) ۔

 
خاکی نہاد و خو ز سپہر کہن گرفت
عیار و بے مدار و کلان کار و تو بتوست

مطلب: اہلِ یورپ ویسے تو ہماری طرح مٹی ہی کی پیداوار ہیں (انسان ہیں ) لیکن انھوں نے اپنی عادتیں پرانے آسمان (قدرتی آفات) جیسی اپنائی ہیں ۔ وہ مکار، بے اصول، چالاک و ہوشیار اور منافق ہیں ۔

 
مشرق خراب و مغرب ازان بیشتر خراب
عالم تمام مردہ و بے ذوق جستجوست

مطلب: اہلِ مشرق تو خراب ہی ہیں اہلِ مغرب تو ان سے بھی زیادہ خرابی میں پڑے ہیں ۔ ساری دنیا مردہ اور جستجو سے خالی ہو چکی ہے (حقیقت سے دور ہو چکی ہے) ۔

 
ساقی بیار بادہ و بزم شبانہ ساز
ما را خراب یک نگہ محرمانہ ساز

مطلب: اے ساقی! اب موقع ہے ۔ شراب لا اور رات کی بزم آراستہ کر ۔ ہمیں اپنی محرمانہ (حقیقت آشنا) نگاہوں سے خراب کر دے (خدا کی محبت از سر نو دلوں میں زندہ کر دے) ۔

(۴۸)

 
فرصت کشمکش مدہ این دل بے قرار را
یک دو شگن زیادہ کن گیسوے تابدار را

مطلب: (اے میرے محبوب) میرے اس بے چین دل کو (اپنے حسن کے جلووَں ) کی کشمکش سے ذرا بھی فراغت نہ دے ۔ اور اپنی ان پیچیدہ زلفوں میں ایک دو شکن پیدا کر دے تاکہ میں ان زلفوں کے پیچ و خم سے باہر نہ آ سکوں ۔

 
از تو درون سینہ ام برق تجلی کہ من
با مہ و مہر دادہ ام تلخی انتظار را

مطلب: تیرے (حسن کے جلووَں کے باعث) میرے سینے میں تجلی کی ایسی چمک پیدا ہوئی ہے کہ اسکے (دیدار) کے لیے میں نے چاند اور سورج کو بھی انتظار کی تکلیف میں ڈال رکھا ہے (چاند اور سورج بھی میرے دل کی تجلیات دیکھنے کے تمنائی ہیں ) ۔

 
ذوق حضور در جہان رسم صنم گری نہاد
عشق فریب می دہد جان امیدوار را

مطلب: (محبوب) کی صورت کا نظارہ کرنے کی آرزو نے دنیا میں بت گری کی رسم پیدا کر دی ہے ۔ (لوگوں نے محبوب کے مجسمے تراش لیے ہیں ) ۔ (یہ ان کا قصور نہیں ) سچی بات تو یہ ہے کہ عشق دیدار کی مشتاق جان کو ہمیشہ دھوکا دیا ہی کرتا ہے ۔ (محبوب سامنے نہ سہی، اس کا خیالی مجسمہ ہی دل کے بہلانے کے لیے کافی ہے) ۔

 
تا بفراغ خاطرے نغمہ تازہ زنم
باز بہ مرغزار دہ طائر مرغزار را

مطلب: (تو اگر سامنے ہو) تو میں اطمینانِ قلب اور آسودگی کے لیے کوئی نغمہ چھیڑ دوں ۔ سبزہ زار کے پرندے کو پھر سے سبزہ زار کے سپرد کر دے ۔ (میرا دل غیر کی محبت میں جکڑا ہوا ہے اسے پھر سے حقیقت آشنا کر دے ۔ )

 
طبع بلند دادادہ بند ز پاے من کشاے
تابہ پلاس تو دہم خلعت شہریار را

مطلب: اے خدا تو نے مجھے بلند فکر بنایا ہے تو میرے پاؤں کی زنجیر کھول کر مجھے آزاد کر دے تا کہ میں کسی کا محتاج نہ رہوں اور تیرا پیغام بھی بخوبی دوسروں تک پہنچا سکوں اور میں تیرے عطا کردہ اس موٹے کپڑے کے لباس کے بدلے میں بادشاہ کے ایرانہ و شاہانہ لباس کو ترک کر کے غریبوں کو ان کے شاہانہ طور طریقے سکھاؤں ۔

 
تیشہ اگر بسنگ زد این چہ مقام گفتگو است
عشق بدوش می کشد این ہمہ کوہسار را

مطلب: اگر (فرہاد) نے کسی پتھر یا پہاڑ پر (نہر کھودنے کے لیے) تیشہ چلایا تھا تو یہ کونسا بڑا کام تھا ۔ عشق میں ایسی قوت ہے کہ پورا پہاڑی سلسلہ اپنے کندھوں پر اٹھا لیتا ہے ۔

(۴۹)

 
جانم در آویخت با روزگاران
جوے است نالان در کوہساران

مطلب: میری جان کائنات (زمان و مکان) سے بالکل اسی طرح متضاد ہے جس طرح پہاڑی سلسلے میں بہتی ہوئی ندی کا پانی (پتھروں سے ٹکرانے کے بعد ) شور کرتا ہے ۔

 
پیدا ستیزد ، پنہان ستیزد
ناپائدارے با پائداران

مطلب: (یہ کائنات) میری جان سے کبھی تو ظاہری طور پر کشمکش اختیار کرتی ہے اور کبھی پوشیدہ طور پر ۔ ناپائیدار اور فانی دنیا سے میری پائیدار جان ہمیشہ کشمکش میں رہتی ہے ۔

 
این کوہ و صحرا این دشت و دریا
نے راز داران نے غمگساران

مطلب: یہ پہاڑ، صحرا بیابان اور دریا (اپنی اپنی دھن میں مگن ہیں ) یہ نہ تو کسی کے رازدار ہوتے ہیں نہ ہی غمگسار ( میں اس بھری دنیا میں بالکل اکیلا ہوں ۔ فطرت کی یہ اشیا میری مونس و غمگسار نہیں کیونکہ یہ درد سے تہی دامن ہیں ) ۔

 
بیگانہ شوق! بیگانہ شوق
این جوئباران این آبشاران

مطلب: یہ ندیاں اور یہ آبشار، شوق سے بیگانہ ہیں ۔ شوق (عشق سے بے خبر ہیں ) ۔

 
فریاد بے سوز، فریاد بے سوز
بانگ ہزاران در شاخساران

مطلب: یہاں آہ و زاری کا کوئی فائدہ نہیں ۔ ہاں ! آہ و زاری کا کوئی فائدہ نہیں ۔ (درختوں ) کی شاخوں پر بسیرا کرنے والی بلبلوں کی آوازیں بھی بے اثر ہو چکی ہیں ۔ (دنیا فکر سے خالی ہو چکی ہے ۔ ) ۔

 
داغے کہ سوزد در سینہ من
آن داغ کم سوخت در لالہ زاران

مطلب: وہ داغ (مسلم قوم کے پسماندہ ہونے کا) جو میرے سینے میں جلتا ہے ایسے داغ تو لالہ کے پھولوں کے چمن میں بھی کم جلے ہوں گے ۔

 
محفل ندارد ساقی ندارد
تلخے کہ سازد با بیقراران

مطلب: محفل بھی نہیں ہے اور ساقی بھی موجود نہیں ۔ (کون سا ایسا) تلخ (غمزدہ) ہو جو ہم بے قراروں (عاشقوں کے ساتھ رہنا پسند کرے ۔ عاشقوں کے مطلب کی بزم اب ناپید ہو چکی) ۔

(۵۰)

 
بہ تسلی کہ دادی نگزاشت کار خود را
بتو باز می سپارم دل بیقرار خود را

مطلب: (اے چاراگر) میرے بے چین دل کو جو تسلی تو نے دی ہے اس سے بھی اس کی بے چینی و بے قراری میں کوئی فرق نہیں آیا ۔ اس لیے میں اپنے اس بے قرار دل کو پھر سے تیرے سپرد کر رہا ہوں ۔ تاکہ تو اس کی بے قراری کا کوئی موزوں علاج تلاش کرے) ۔

 
چہ دلے کہ محنت از نفس شماری او
کہ بدست خود ندارد رگ روزگار خود را

مطلب: اس دل کی کیا حالت ہے ۔ جس کی محنت (دھڑکنے) کا تعلق چار و ناچار زندگی بسر کرنے سے ہے کہ زمانے کی نبض اس کے ہاتھ میں نہیں ہے (وہ دل جو عشق سے بیگانہ ہے مجبوراً دھڑک رہا ہے اس لیے بیکار ہے) ۔

بضمیرت آرمیدم تو بجوش خود نمائی
بکنارہ برفگندی در آب دار خود را

مطلب: میں نے تو تیرے دل میں بسیرا کیا تھا ۔ لیکن تو نے خود نمائی کے جوش میں اپنے خوبصورت چمکتے ہوئے موتی کو (دریا سے نکال کر) کنارے پر پھینک دیا ۔ (اگر خدا کی خود جلوہ نمائی کی خواہش نہ ہوتی تو کائنات وجود میں نہ آتی) ۔

 
مہ و انجم از تو دارد گلہ ہا شنیدہ باشی
کہ بخاک تیرہ ما زدہ شرار خود را

مطلب: اے خالق کائنات! تو نے چاند اور ستاروں کا شکوہ تو سنا ہو گا ۔ یہ شکوہ اس بنا پر تھا کہ تو نے ان میں دل کیوں پیدا نہیں کیا ۔ تو نے ہماری تاریک مٹی میں اپنی محبت کی چنگاری پھینکی ہے جو کسی اور مخلوق میں نہیں ہے ۔

 
خلشے بسینہ ما ز خدنگ او غنیمت
کہ اگر بپائش افتد نبرد شکار خود را

مطلب: ہمارے سینہ میں (محبت کے) تیر کی ایک خلش بھی غنیمت ہے ۔ کیونکہ (محبت) تو ایسا شکاری ہے کہ اگر شکار خود اس کے قدموں میں آ گرے پھر بھی وہ اسے نہ لے جائے ۔