Please wait..

غزل نمبر۴۳
یہ غزل بھی اقبال نے حافظ کی اس غزل کے بارے میں لکھی ہے جس کا یہ شعر بہت مشہور ہے ۔

 
مباش درپے آزاد و پرچہ خواہی کن
کہ در شریعت عاغیر ازیں گناہے نیست

 
اگرچہ زیب سرش افسرد کلاہے نیست
گداے کوے تو کمتر ز پادشاہے نیست

مطلب: اگرچہ اس کے سر پر کوئی تاج اور کلاہ نہیں ہے مگر تیری گلی کا فقیر کسی بادشاہ سے کم نہیں ۔

 
بخواب رفتہ جوانان و مردہ دل پیران
نصیب سینہ کس آہ صبحگاہے نیست

مطلب: جوان نیند کے رسیہ اور بوڑھے مردہ دل کسی کے سینے کو صبح کی آہ نصیب نہیں ۔ (افسوس! مسلمانوں میں کوئی شخص بھی طلوع آفتاب سے پہلے بیدار ہو کر تہجد نہیں پڑھتا یعنی خدا کی بارگاہ میں آہ و زاری نہیں کرتا ۔ اقبال کا عقیدہ ہے کہ آہ سحر گاہی کے بغیر دل میں سوز و گداز کا رنگ پیدا نہیں ہو سکتا) ۔
عطار ہو رومی ہو رازی ہو غزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہی

 
باین بہانہ بدشت طلب ز پا منیش
کہ در زمانہ ما آشناے راہے نیست

مطلب: اس بہانے سے طلب کے میدان میں پاؤں توڑ کے بیٹھ نہ رہ کہ ہمارے زمانے میں کوئی راستہ جاننے والا مرشد نہیں ہے (اگر تو تلاش کرے گا تو کوئی نہ کوئی مرشد یقینا مل جائے گا) ۔

 
ز وقت خویش چہ غافل نشستہ ، دریاب
زمانہ کہ حسابش ز سال و ماہے نیست

مطلب: کیا اپنے حال سے غافل بیٹھا ہے (اٹھ اور) کھوج وہ زمانہ جس کا حساب کسی ماہ و سال سے نہیں ہے ۔

 
درین رباط کہن چشم عافیت داری
ترا بکشمکش زندگی نگاہے نیست

مطلب: اس پرانی سرائے میں عافیت کی آرزو رکھتا ہے کیا زندگی کی کشمکش پر تیری نظر نہیں ہے(دنیا میں وہی زندہ رہ سکتا ہے جو ہر وقت جدوجہد کرتا ہے) ۔

 
گناہ ما چہ نویسند کاتبان عمل
نصیب ما ز جہان تو جز نگاہے نیست

مطلب: نامہ اعمال لکھنے والے فرشتے ہمارا گناہ کیا لکھیں گے ،تیری دنیا میں ہمارا نصیب بس ایک نظر ہی تو ہے اور کچھ نہیں (ہم تو تیری نگاہ ناز کے کشتہ ہیں یا ہم تو ایک نگاہ سے بے خود ہو گئے اور جب یہی ہوش نہ رہا تو گناہ یا ثواب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا) ۔

 
بیا کہ دامن اقبال را بدست آریم
کہ او ز خرقہ فروشان خانقاہے نیست

مطلب: اقبال کا دامن تھام لے کیونکہ وہ کسی خانقاہ کے خرقہ فروشوں میں سے نہیں ہے ۔
کئے ہیں فاش رموز قلندری میں نے
کہ فکر مدرسہ و خانقاہ ہو آزاد (اقبال) ۔