غزل(۱)
عشق شور انگیز را ہر جادہ در کوے تو بود بر تلاش خود چہ می نازد کہ رہ سوے تو بود
مطلب: یہ غزل صرف ایک شعر پر مشتمل ہے ۔ اقبال اپنے عشق کی شوریدہ سری کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس شور پیدا کرنے والے عشق کو ہر راستہ تیری گلی کی طرف لے گیا ۔ وہ اپنی تلاش کر کیا فخر کرتا کہ راستہ تو خود ہی اسے تیری گلی کی طرف لے گیا تھا ۔ سچا عشق اور سچی طلب ہی منزلِ مراد تک پہنچا سکتے ہیں ۔ عاشق کو اپنی تلاش پر نازاں نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس کی کامیا بی اس کے محبوب کی نظرِ عنایت کی مرہونِ منت ہے ۔
(۲)
درون سینہ ما سوز آرزو ز کجاست سبو ز ماست، ولے بادہ در سبو ز کجاست
مطلب: ہمارے سینے میں تمنا کی حرارت کہاں سے آئی ہے ۔ یہ صراحی تو بے شک ہماری ہے لیکن اس میں جو شراب ہے وہ کہاں سے آئی ہےیہاں صراحی سے مراد مادی جسم ہے اور اس میں تمناؤں کا سوز و گداز اور جذباتی کیفیت وہ شراب ہے جو ہمیشہ اس مشت خاک کو خالق حقیقی کے وصال کے لیے بے قرار رکھتی ہے ۔
گرفتم این کہ جہان خاک و ما کف خاکیم بہ ذرہ ذرہ ما درد جستجو ز کجاست
مطلب: اس دنیا کا مادہ خاک ہے اور ہم بھی ایک مشت خاک (مٹی کی مٹھی) ہیں ۔ ہمارا جسم مادہ اشیاء کا بنا ہوا ہے ۔ لیکن ہمارے جسم میں جو دردِ جستجو پایا جاتا ہے وہ کہاں سے آیا ہےیہ تلاش و جستجو اسے کوئی نہ کوئی چیز ضرور اُکسا رہی ہے ۔
نگاہ ما بگریبان کہکشان افتد جنون ما ز کجا شور ہاے و ہو ز کجاست
مطلب: ہماری نگاہ کہکشاں کو تو دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن اپنے اندر کے جنون اور عشق کو دیکھنے سے قاصر ہے ۔ یہ نگاہِ ظاہری باطنی کیفیت کو نہیں سمجھ سکتی ۔ کوئی مردِ کامل ہی منزل سلوک کا راستہ دکھا سکتا ہے ۔
(۳)
غزل سراے و نواہاے رفتہ باز آور باین فسردہ دلان حرف دل نواز آور
مطلب: اقبال اس شعر میں ربِ ذوالجلال سے عرض کرتے ہیں کہ غزل گوئی کا وہ انداز اور سُرتال کا وہ اسلوب جو کبھی مسلم قوم میں موجود تھا اُسے پھر سے زندہ کر دے ۔ افسردہ اور غم زدہ دلوں کو مسرتوں سے ہمکنار کرنے کے لیے کوئی شگفتہ کلام لے کر آ ۔ تا کہ مسلمانوں کی زندگی میں پھر سے عروج کی حرارت پیدا ہو جائے ۔
کنشت و کعبہ و بتخانہ و کلیسا را ہزار فتنہ از آن چشم نیم باز آور
مطلب: اے خدا! آتش پرستون کے مندر ، مسلمانوں کے حرم کعبہ، کافروں کے صنم خانوں اور عیسائیوں کے گرجا گھروں میں اپنی مستی بھری نگاہوں ایسے ان گنت فتنے (تڑپ) پیدا کر دے جو انہیں اپنے اپنے مذاہب سے سچی لگن اور محبت کے اصول پھر سے سکھا دے ۔ مطلب یہ کہ جو لوگ غفلت کا شکار ہو کر اپنے دین سے برگشتہ ہو چکے ہیں انہیں دوبارہ اسی سچے راستے سے آشنا کر دے ۔
ز بادہ ئی کہ بخاک من آتشے آمیخت پیالہ ئی بجوانان نو نیاز آور
مطلب: وہ شرابِ معرفت جس نے میرے خاکی بدن میں نورِ حق کی آگ پیدا کر دی ہے ۔ اس کا ایک پیالہ ان نوجوانوں کو بھی پلا دے جنھیں تیری قربت حاصل کرنے کا شوق ہے ۔ مراد یہ کہ نئی نسل کے نوجوان دین کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں انہیں اپنے عشق کی شراب پلا دے ۔
نئے کہ دل ز نوایش بسینہ می رقصد مے کہ شیشہ جان را دہد گداز آور
مطلب: وہ بانسری جس کی مدھر تانوں سے دل سینے میں ناچنے لگتا ہے اور وہ شراب کہ جس سے ساغر جان (جان کا پیالہ ) پگھل جاتا ہے اے خدا پھر سے لا ۔ یعنی مسلمانوں میں دوبارہ اپنی محبت اور ذوق اور شوق اُجاگر کرنے کے اسباب پیدا کر دے ۔
بہ نیستان عجم باد صبحدم تیز است شرارہ ئی کہ فرو می چکد ز ساز آور
مطلب: خدا سے دعا کرتے ہوئے علامہ عرض کرتے ہیں کہ اے خدا! عجم یعنی مشرق کے سرکنڈوں میں جنگل کی بادِ صبا بڑی تیزی سے چل رہی ہے یعنی مشرقی مسلم ممالک میں بیداری کی لہر اٹھ رہی ہے ۔ اس بیداری کو برقرار رکھنے کے لیے ایسی چنگاری کی ضرورت ہے جو سرکنڈوں میں آگ بھڑکا دے ۔ یہ آگ وہ عشقِ حقیقی ہے جو مسلمانوں میں مقصود ہو چکا ہے ۔ اس آگ کے بھڑکنے سے مسلمان قوم پھر سے زندہ ہو جائے گی ۔
(۴)
اے کہ ز من فزودہ گر می آہ و نالہ را زندہ کن از صداے من خاک ہزار سالہ را
مطلب: اے خدا تو نے میری آہ و زاری کو میری شاعری کی وجہ سے بڑھا دیا ہے ۔ میری اس آواز سے ہزاروں سال کی پرانی مٹی کو زندہ کر دے ۔ مطلب یہ کہ مسلمان اس مادہ پرست دنیا میں گم ہو کر اپنی پہچان کھو چکا ہے ۔ وہ اپنی پہچان صرف اس صورت میں حاصل کر سکتا ہے اگر اس کے دل میں تیری محبت پیدا ہو جائے ۔
با دل ما چہاکنی تو کہ ببادہ حیات مستی شوق می دہی آب و گل پیالہ را
مطلب:تو میرے دل کے ساتھ بہت کچھ کر سکتا ہے ۔ اسے اپنی محبت سے سرفراز کر سکتا ہے ۔ تو زندگی کی شراب سے پانی میں گندھی ہوئی مٹی سے بنے پیالے کو عشق کی مستی عطا کر دیتا ہے ۔ یہاں تخلیق آدم کی طرف اشارہ ہے جس طرح رب کائنات نے بے جان مٹی میں زندگی کی روح پھونک دی تھی ۔ اسی طرح شاعر کے جسم خاکی کو بھی عشق آشنا بنا سکتا ہے ۔
غنچہ دل گرفتہ را از نفسم گرہ کشاے تازہ کن از نسیم من داغ درون لالہ را
مطلب: میرے دم میں ایسی قوت عطا کر دے جو بند دل غنچوں کے منہ کھول دے یعنی غمزدہ لوگوں کو راحت بخش دے ۔ میری نرم و لطیف ہوا کے جھونکوں سے گل لالہ کے اس داغ کو پھر سے تروتازہ کر دے جو وقت کے ہاتھوں اپنی سیاہی کھو چکا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ میرے کلام سے امتِ مسلمہ کے رنجیدہ دلوں کو راحت دے کر انہیں موجودہ مشکلات سے نجات دے دے ۔
می گزرد خیال من از مہ و مہر و مشتری تو بکمیں چہ خفتہ صید کن این غزالہ را
مطلب: میری سوچ اور فکر چاند، سورج اور مشتری سے بھی آگے بڑھ گئی ہے ۔ تو گھات لگائے کیوں بیٹھا ہے اس ہرنی کو شکار کر جو تیرے قریب ہے ۔ مراد یہ کہ انسان ستاروں پر کمندیں تو ڈال رہا ہے لیکن اسے اپنی ذات کی پہچان نہیں ہے ۔ اقبال کہتے ہیں کہ اے خدا میں اپنے آپ سے اور تجھ سے بے خبر ہو چکا ہوں ۔ تو مجھے اپنی پہچان سے آشنا کر دے ۔
خواجہ من! نگاہ دار آبروے گداے خویش آنکہ ز جوے دیگران پر نکند پیالہ را
مطلب: اے میرے آقا! اپنے اس گدا کی عزت و آبرو کی حفاظت کر ۔ تیرے در کا یہ گدا دوسروں کی نہر سے اپنا پیالہ نہیں بھرتا ۔ یہ صرف تیرے ہی دروازے کا سائل ہے اسے دوسرے کا محتاج نہ بنا ۔
(۵)
از مشت غبار ما صد نالہ برانگیزی نزدیک تر از جانی با خوے کم آمیزی
مطلب: اے خدا! تو ہمارے مٹھی بھر خاکی جسم میں سینکڑوں طرح کی فریادیں بلند کرتا ہے ۔ دوسروں سے کم ملنے کی عادت رکھنے کے باوجود تو ہماری جان سے زیادہ نزدیک ہے ۔ یعنی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے ۔ میری آہ و زاری یہ ثابت کرتی ہے کہ تو مجھ سے واقعی بہت قریب ہے ۔
در موج صبا پنہان دزدیدہ بباغ آئی در بوئے گل آمیزی باغنچہ در آویزی
مطلب: صبا کے دوش پر تو چھپ کر باغ میں آتا ہے اور پھولوں کی بکھری ہوئی خوشبو اور بند کلیوں میں گھل مل جاتا ہے ۔ پھولوں کے حسن اور کلیوں کی خوشبو میں تیرے ہی جلوے نمایاں ہیں ۔
مغرب ز تو بیگانہ، مشرق ہمہ افسانہ وقت است کہ در عالم نقش دگر انگیزی
مطلب: اے خدا! اہل مغرب تیری عظمت سے بے خبر ہو چکے ہیں اور اہل مشرق افسانوں کی مانند خیالات کی دنیا میں گم ہیں یعنی حقیقت سے دور ہو چکے ہیں اور سراب کے پیچھے بھاگ رہے ہیں ۔
آنکس کہ بسردارد سوداے جہانگیری تسکین جنونش کن بانشتر چنگیزی
مطلب: جس شخص کو دنیا پر حکمرانی کا جنون ہو اور وہ دنیا کو تیری غلامی سے چھڑا کر اپنا غلام بنانا چاہتا ہے اس کے اس پاگل پن اور جنون کی تسکین کے لیے ایسا چنگیزی نشتر چلا کہ اس کے دل و دماغ سے یہ خیال باطن فاسد خون کی طرح بہہ جائے اور وہ یہ بات سمجھ لے کہ اصل حکمرانی تو اللہ ہی کو زیبا ہے ۔
من بندہ بے قیدم شاید کہ گریزم باز این طرہ پیچان را در گردنم آویزی
مطلب: اے خدا! میں تیرا ایسا غلام ہوں جو کسی قسم کی زنجیروں میں نہیں جکڑا ہوا ۔ ہو سکتا ہے کہ زمانے کے اطوار مجھے تجھ سے باغی کر دیں ۔ ایسے میں تو اپنے اس بل کھائے ہوئے گیسووَں کو میری گردن کے گرد لپیٹ دے تاکہ میں کسی وقت بھی تیری غلامی سے دور نہ جا سکوں ۔
جز نالہ نمی دانم، گویند غزل خوانم این چیست کہ چوں شبنم بر سینہ من ریزی
مطلب: میں تو نالہ و فریاد کے سوا کچھ نہیں جانتا ۔ لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ میں غزل پڑھ رہا ہوں ۔ یہ کیا چیز ہے جو تو شبنم کی طرح میرے سینے پر گرا رہا ہے (لوگ مجھے شاعر سمجھ رہے ہیں حالانکہ میں تو تیرا الہامی پیغام لوگوں کو پہنچا رہا ہوں کیونکہ یہی ایسا طریقہ ہے جس سے میں لوگوں کے دلوں تک اپنی آواز پہنچا سکتا ہوں ) ۔