شاہین و ماہی
(شاہین اور مچھلی)
ماہی بچہ ئی شوخ بہ شاہین بچہ ئی گفت ای سلسلہ ی موج کہ بینی ہمہ دریاست
مطلب: ایک شوخ ماہی بچہ شاہین کے بچے سے بولا لہروں کا یہ سلسلہ جو تو دیکھ رہا ہے سارا سمندر ہے ۔
دارای نہنگان خروشندہ تر از میغ در سینہ ی او دیدہ و نادیدہ بلاہاست
مطلب: کالی گھٹا سے بڑھ کر گرجتے ہوئے مگر مچھ رکھنے والا اس کے سینے میں کئی دیکھی اور کئی ان دیکھی بلائیں ہیں ۔
با سیل گران سنگ و زمین و سبک خیز با گوہر تابندہ و با لولوی لالاست
مطلب: اس کے اندر ایسے سیلاب اٹھتے ہیں جو بھاری بھر کم پتھر ساتھ لاتے ہیں ۔ تابندہ موتی اور روشن مروارید گوہر بھرا ہوا ہے ۔
ہر لحظہ جوان است و روان است و دوان است از گردش ایام نہ افزون شد و نی کاست
مطلب: یہ سدا جوان ہے اور ہر دم رواں دواں زمانے کی گردش سے نہ بڑا اور نہ گھٹا ۔
ماہی بچہ را سوز سخن چہرہ برافروخت شاہیں بچہ خندید و ز ساحل بہ ہوا خاست
مطلب: مچھلی کے بچہ کا چہرہ سرخ ہو گیا ۔ شاہین بچہ مسکرایا اور ساحل سے ہوا میں اڑ گیا ۔
زد بانگ کہ شاہینم و کارم بہ زمین چیست صحراست کہ دریاست تہ بال و پر ماست
مطلب: اور پکارا کہ میں شاہین ہوں مجھے زمین سے کیا لینا صحرا ہو کہ دریا ہو سب ہمارے پروں کے نیچے ہے ۔
بگذر ز سر آب و بہ پہنای ہوا ساز این نکتہ نہ بیند مگر آن دیدہ کہ بیناست
مطلب: پانی سے گزر جا اور فضا کی وسعت سے موافقت پیدا کر اسی بھید کو نہیں دیکھتی مگر نظر رکھنے والی آنکھ ۔ (اس نکتہ کو وہی آنکھ دیکھ سکتی ہے جو بینا ہو) دنیا میں پھنسے لوگ یہ بات نہیں سمجھ سکتے ۔