Please wait..

جواب

 
خودی تعویذ حفظ کائنات است
نخستین پرتو ذاتش حیات است

مطلب: خدا کی خودی اس کائنات کی حفاظت کا تعویذ ہے ۔ اور اس کی ذات کا پہلا عکس زندگی ہے ۔ خدا پہلی دفعہ تعین اول پر جلوہ فرما ہوا ۔ تاکہ اپنی ذات کا ظہور کر سکے اور اس نے اپنے ظہور کے لیے نورِ محمد ﷺ کو اپنا آئینہ بنایا ۔

 
حیات از خواب خوش بیدار گردد
درونش چون یکی بسیار گردد

مطلب: زندگی جب پرسکون خواب سے بیدار ہوئی تو اس کے اندر کی اکائی کثرت میں بدل گئی ۔

 
نہ او را بے نمود ما کشودے
نہ ما را بے کشود او نمودے

مطلب: اب نہ اس کا ہماری نمود کے بغیر کشود ہو سکتا ہے اور نہ اس کی کشود کے بغیر ہماری نمود ہو سکتی ہے (انائے مطلق اور انائے مقید دونوں ایک دوسرے کے لیے ضروری ہیں ) لیکن وہ خدا کسی کا محتاج نہیں ۔

 
ضمیرش بحر ناپیدا کنارے
دل ہر قطرہ موج بیقرارے

مطلب: اس کا ضمیر ایک بحرِ بیکراں ہے ۔ اس سمندر کے ہر قطرہ کا دل ایک بے قرار موج کی مانند ہے ۔ قطرہ (انائے مقید ) بحر (انائے مطلق) سے الگ نہیں ہے ۔ کیونکہ ہر قطرے کا تعلق سمندر سے ہے اور ہر قطرے میں سمندر کی صفات بھی پائی جاتی ہیں ۔

 
سر و برگ شکیبائی ندارد
بجز افراد پیدائی ندارد

مطلب: یہ (انائے مطلق) صبر و قرار کا حوصلہ نہیں رکھتی ۔ ہر وقت ظہور کے لیے بیتاب رہتی ہے ۔ اور یہ اقرار کے بغیر ظاہر بھی نہیں ہو سکتی ۔ یہ اکائی سے کثرت میں آ کر مختلف اشیاء میں جلوہ گر ہو جاتی ہے ۔ اس کو عارفین کثرت میں وحدت کہتے ہیں ۔

 
حیات آتش خودی ہا چون شررہا
چو انجم ثابت و اندر سفرہا

مطلب: زندگی آگ ہے اور مختلف اشیاء کی خودی ہیں اور وہ شراروں چنگاریوں کی مانند ہیں ۔ زندگی ستاروں کی طرح ساکن ہے لیکن پھر بھی متحرک ہے ۔ جس طرح شرارے آگ سے الگ نہیں ہوتے اسی طرح صفات بھی ذات سے الگ نہیں ہو سکتی ۔

 
ز خود نا رفتہ بیروں غیر بین است
میان انجمن خلوت نشین است

مطلب: زندگی اپنے مقام پر ٹھہر کر دوسروں کو دیکھ رہی ہے ۔ انجمن میں ہوتے ہوئے وہ خلوت نشین ہے ۔ اگرچہ وہ جملہ اشیاء سے موجود ہے لیکن جملہ اشیاء سے الگ بھی ہے ۔

 
یکے بنگر بخود پیچیدن او
ز خاک پے سپر بالیدن او

مطلب: ایک دفعہ دیکھ کہ خود سے کس طرح لپٹی ہے ۔ اور وہ کس طرح پاؤں میں مسلی ہوئی مٹی سے باہر آئی (زندگی ہر وقت اپنی نمود کے لیے تیار رہتی ہے اور چھوٹی سے چھوٹی چیز میں بھی اپنے جلووں کا اظہار کر دیتی ہے ۔ اسے چیز سے غرض نہیں ہوتی اسے تو اپنے اظہار سے غرض ہوتی ہے ۔

 
نہان از دیدہ ہا در ہاے و ہوے
دمادم جستجوئے رنگ و بوے

مطلب: زندگی اگرچہ ہماری نگاہوں سے پوشیدہ ہے لیکن اس کا شور اور ہنگامہ ہر جگہ پایا جاتا ہے ۔ زندگی کو قرار نہیں ۔ یہ ہر لمحہ اپنے اظہار کے لیے رنگ و بو کی تلاش میں رہتی ہے ۔

 
ز سوز اندروں در جست و خیز است
بآئینے کہ با خود در ستیز است

مطلب: اپنے اندر سوز کی وجہ سے یہ تلاش و جستجو اور عمل میں مصروف رہتی ہے ۔ اس انداز سے جیسے کہ وہ خود بھی مصروف جنگ رہتی ہے ۔ یعنی اپنی نمود کی تگ و دو میں مصروف رہتی ہے ۔

 
جہان را از ستیز او نظامے
کف خاک از ستیز آئینہ فامے

مطلب: اس دنیا کا نظام اسی جنگ کا نتیجہ ہے اور یہ مشت خاک (آدم) اس کی اس جنگ کے باعث آئینہ فام ہو جاتا ہے (آدم اسی تگ و دو کے باعث نور ہو جاتا ہے)

 
نریزد جز خودی از پرتو او
نخیزد جز گہر اندر زو او

مطلب: اس آئینے کے عکس سے نور اور خودی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ اس کے دریا سے موتی کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ (انائے مطلق پہلے زندگی میں ظہور کرتی ہے اور پھر س زندگی کے ذریعے جملہ اشیاء میں ظاہر ہوتی ہے) ۔

 
خودی را پیکر خاکی حجاب است
طلوع او مثال آفتاب است

مطلب: خودی (آدم خاکی) کے جسم میں پہلے سے موجود ہوتی ہے ۔ اگر اس جسم خاکی کے پردہ کو کسی طرح ہٹا دیا جائے تو خودی سورج کی مانند جلوہ گر ہو گی ۔ ہر طرف اس آفتاب کی روشنی ہے ۔

 
درون سینہ ما خاور او
فروغ خاک ما از جوہر او

مطلب: ہمارے سینے میں اس کا سورج روشن ہے ۔ ہماری مٹی میں تابناکی اسی جوہر کی وجہ سے ہے ۔

 
تومی گوئی مرا از، من خبر کن
چہ معنی دارد اندر خود سفر کن

مطلب: تو مجھ سے یہ کہتا ہے کہ مجھے من کے بارے میں بتا کہ یہ کیا ہے تو مجھ سے پوچھتا ہے کہ اپنے اندر سفر کرنے کا کیا مطلب ہے

 
ترا گفتم کہ ربط جان و تن چیست
سفر در خود کن و بنگر کہ من چیست

مطلب: میں تجھے جان اور تن میں ربط کے بارے میں بتاتا ہوں ۔ (اس ربط کے ادراک کے بعد اپنے اندر سفر اور دیکھ کہ من کیا ہے (تجھے معلوم ہو جائے گا کہ من انائے مطلق ہی کی تعیناتی صورت ہے) ۔

 
سفر در خویش زادن بے اب و مام
ثریا را گرفتن از لب بام

مطلب: خود میں سفر کرنا کیا ہے بغیر ماں باپ کے پیدا ہونا ، سفر درخویش ہے ۔ ثریا ، ستاروں کے جھرمٹ کو آسمان کی چھت سے پکڑ لینا ہے (اپنی حقیقت کو پا لینا ہی سفر در خویش ہے) اور اسی سے آدمِ خاکی مقامِ بلند حاصل کرتا ہے ۔

 
ابد بردن بیک دم اضطرابے
تماشا بے شعاع آفتابے

مطلب: ایک دم سے فوری طور پر اضطراب کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دینا اور آفتاب کی شعاعوں کے بغیر تماشا کرنا (سورج کی روشنی نہ بھی ہو تو اپنے من کی روشنی سے کائنات کا مشاہدہ کرنا) ۔

 
ستردن نقش ہر امید و بیمے
زدن چاکے بدریا چون کلیمے

مطلب: ہر امید اور خوف کے نقش کو ہٹا دینا اور حضرت موسیٰ کی طرح دریا کو پھاڑ دینا ۔

 
شکستن این طلسم بحر و بر را
ز انگشتے شگافیدن قمر را

مطلب: اس بحر و بر کے جادو کو توڑ دینا اور انگلی سے چاند میں شگاف ڈال دینا (ناممکن کو ممکن کر دکھانا) ۔

 
چنان باز آمدن از لامکانش
درون سینہ او در کف جہانش

مطلب: اور اس خدا کے جہانِ لا مکان سے اس طرح واپس آنا کہ دل میں تو اس کا جلوہ ہو اور جہان ہتھیلی پر ہو ۔ سفر معراج کے دوران اللہ کے نبی نے جو مشاہدات کئے اور اللہ نے اپنے نبی سے جو باتیں کیں ان کے اسرار و رموز سے کوئی اور واقف نہیں ہے ۔ اس لیے دل میں خدا کا ہونا اور ہتھیلی پر جہان کا ہونا کیسے ہو ۔ یہ اللہ اور اس کے رسول ہی کو معلوم ہے ۔

 
ولے این راز را گفتن محال است
کہ دیدن شیشہ و گفتن سفال است

مطلب: لیکن یہ راز کھولنا بہت مشکل ہے ۔ یہ ایسا ہی ہے کہ شیشے کو دیکھنا اور کہنا کہ یہ تو سفال یعنی ٹھیکرا ہے ۔ حقیقت الفاظ سے بیان نہیں ہو سکتی ۔

 
چہ گویم از من و از توش و تابش
کند انا عرضنا بے نقابش

مطلب: میں من اور اس کی قوت اور تجلی کے بارے میں کیا بتاؤں (کیونکہ الفاظ میں اس کا اظہار مشکل ہے) لیکن اس بات کو آیت قرآنی ضرور بے نقاب کرتی ہے ۔ قرآن کی سورہ ۳۳ کی آیت کہتی ہے ، ہم نے آسمانوں ، زمینوں اور پہاڑوں پر امانت پیش کی انھوں نے اٹھانے سے انکار کر دیا ۔ اس سے ڈر گئے لیکن آدمی نے اسے اٹھا لیا ۔ اس بار امانت کے بارے میں عارفان الہٰی کے سوا اور کوئی نہیں جانتا ۔

 
فلک را لرزہ بر تن از فر او
زمان و ہم مکان اندر بر او

مطلب: اس من کی شان و شوکت سے آسمان کے جسم پر خوف طاری ہے ۔ زمان بھی اور مکان بھی اس کے پہلو میں ہے ۔ اس کے دائرہ کار میں ہیں ۔

 
نشیمن را دل آدم نہاد است
نصیب مشت خاکے او فتاد است

مطلب: اور اس کے آشیاں کی تعمیر کے لیے آدم کا دل بنیاد ہے اور وہ دل صرف آدم خاکی ہی کو نصیب ہوا ہے ۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے عشقِ الہٰی کا بوجھ اٹھا لیا ۔

 
جدا از غیر و ہم وابستہ غیر
گم اندر خویش و ہم پیوستہ غیر

مطلب: من غیر سے جدا بھی ہے اور غیر سے وابستہ بھی ہے ۔ یہ اپنے اندر گم بھی ہے اور غیر سے بھی تعلق رکھتا ہے ۔ ہر شے میں موجود بھی ہے اور ہر شے سے الگ بھی ہے ۔

 
خیال اندر کف خاکے چسان است
کہ سیرش بے مکان و بے زمان است

مطلب: اس کفِ خاک میں خیال کیا چیز ہے کہ اس کی سیر زمان و مکان کی قید سے ماورا ہے ۔ جہاں چاہے جا سکتا ہے ۔

 
بزندان است و آزاد است، این چیست
کمند و صید و صیاد است این چیست

مطلب: وہ قید خانے میں ہے اور آزاد بھی ہے ۔ آخر یہ کیا ہے وہی کمند بھی ہے وہی شکار بھی ہے اور وہی شکاری بھی ے ۔

 
چراغے درمیان سینہ تست
چہ نور است این کہ در آئینہ تست

مطلب: یہ تیرے دل میں ایک چراغ ہے ۔ یہ نور ہے جس کا عکس تیرے آئینے میں ہے ۔

 
مشو غافل کہ تو او را امینی
چہ نادانی کہ سوے خود نہ بینی

مطلب: تو غفلت میں نہ پڑ کیونکہ تجھے یہ امانت دی گئی ہے تو کیسا نادان ہے کہ اپنی حقیقت کو نہیں پہچانتا ۔
خلاصہ
مطلب: اس بند میں خودی کی من کی اور اپنے اندر سفر کی بات کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ وجودِ مطلق تعین میں آ کر جب قابل اشارہ ہو جاتا ہے تو اسے من کہتے ہیں خودی بھی اس کا دوسرا نام ہے ۔ اور اس کی پہچان اپنے اندر سفر کرنے سے ہوتی ہے اور اپنے اندر سفر ماں باپ کے بغیر دوبارہ پیدا ہوتا ہے ۔