(۲۱)
باز بر رفتہ و آئندہ نظر باید کرد ہلہ برخیز! کہ اندیشہ دگر باید کرد
مطلب: (اے انسان) تجھے از سر نو اپنی گذشتہ زندگی اور آنے والی زندگی پر نظر دوڑانی چاہیے ۔ وہ تمہیں خبردار کر رہا ہے اٹھ ۔ اور پھر سے سوچ کہہ تجھے کیا کرنا ہے ۔
عشق بر ناقہ ایام کشد محمل خویش عاشقی را حلہ از شام و سحر باید کرد
مطلب: عشق زمانے کی اونٹنی پر اپنا محمل قائم کرتا ہے (اہل عشق ہی زمانے کے مالک ہوتے ہیں ) اس لیے تو اگر عاشقِ صادق ہے تو پھر شام و سحر تیرے زیرِ قبضہ ہونے چاہیے (تجھے زمانے کا مالک ہونا چاہیے) ۔
پیر ما گفت جہان بر روشے محکم نیست از خوش و ناخوش او قطع نظر باید کرد
مطلب: میرے پیر (مرشد) نے مجھے بتایا کہ یہ جہاں ایک طرز پر قائم نہیں ہے (کبھی یہاں غم ہیں تو کبھی خوشیاں ) ان تمام باتوں سے قطع نظر زندگی بسر کرنی چاہیے (ہر تبدیلی اللہ کی رضا کے مطابق ہوتی ہے) ۔
تو اگر ترک جہان کردہ سر او داری پس نخستیں ز سر خویش گزر باید کرد
مطلب: اگر تو اس دنیا کو چھوڑ کر (محبوب سے وصال) کا ارادہ رکھتا ہے کہ پہلے تجھے اپنی زندگی (راہِ وفا) میں قربان کرنا ہو گی ۔
گفتمش در دل من لات و منات است بسے گفت این بتکدہ را زیر و زبر باید کرد
مطلب: میں نے اس (اپنے محبوب سے ) کہا کہ مرے دل میں تو لات و منات نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں ۔ اس (محبوب) نے کہا کہ اگر تجھے وصلِ محبوب عزیز ہے تو اپنے دل کے اس بت کو برباد کر دے ۔ (اپنے دل سے افکارِ شیطانی نکال دے پھر تو (جلوہَ محبوب) خدا کی قربت سے فیض ہو جائے گا ۔
(۲۲)
خیال من بہ تماشاے آسمان بود است بدوش ماہ و بآغوش کہکشان بود است
مطلب: میرا (مردِ مومن) خیال آسمانوں ( میں ہونے والی تبدیلیوں ) کا مشاہدہ کر رہا ہے اور چاند کے شانوں پر اور کہکشاں کی گود میں رہ رہا ہے (زمین کا رہنے والا آسمان سے بھی پرے ہونے والے واقعات کا علم رکھتا ہے) ۔
گمان مبر کہ ہمیں خاکدان نشیمن ما است کہ ہر ستارہ جہان است یا جہان بود است
مطلب: ایسا مت سوچ کہ یہ خاکداں (مٹی کا گھر یعنی د نیا) ہی ہمارے رہنے کی جگہ ہے (اصل بات تو یہ ہے) کہ ہر ستارہ ایک جہان ہے یا جہاں رہا ہے (یہ سب ہمارے گھر ہیں اور ہم نہ جانے کن کن جہانوں کی سیر کے بعد اس زمین پر پہنچے ہیں ) ۔
بچشم مور فرومایہ آشکار آید ہزار نکتہ کہ از چشم ما نہان بود است
مطلب: ایک حقیر سی چیونٹی کی نظر سے ہزاروں باریک باتیں ظاہر ہو رہی ہیں ۔ وہ باتیں جو ابھی تک ہماری نگاہوں سے اوجھل رہی ہیں (انسان ایک معمولی مخلوق ہونے کے باوجود کائنات کے سربستہ رازوں سے باخبر ہے) ۔
زمیں بہ پشت خود الوند و بیستوں دارد غبار ماست کہ بر دوش او گران بود است
مطلب: یہ زمین اگرچہ اپنی پیٹھ پر الوند اور بیستوں جیسے بڑے پہاڑوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے پھرتی ہے ۔ لیکن ایک ہمارا (انسان کا) جسم خاکی ہے کہ اس کے کاندھوں سے برداشت نہیں ہوتا ۔ (پہاڑوں جیسی بے جان اشیاء تو زمین پر قائم رہتی ہے ۔ لیکن انسان کا بوجھ زمین اٹھانے سے قاصر ہے) ۔
ز داغ لالہ خونیں پیالہ می بینم کہ این گسستہ نفس صاحب فغان بود است
مطلب: میں لالہ کے پھول کے خون بھرے پیالے کے داغ سے دیکھ رہا ہوں کہ یہ خاموش زباں لالہ کبھی آہ و زاری بھی کرتا رہا ہے ۔ (لالہ کے سینے کا داغ بتا رہا ہے کہ یہ کبھی عشق سے بھرپور تھا اور دوسرے پیالوں میں یعنی دنیا اور اشیاء میں لالے کے رنگ کی جو سرخی نظر آتی ہے وہ اسی داغ کی وجہ سے ہے ۔ کائنات کے ہر ذرہ میں عشق کار فرما ہے) ۔
(۲۳)
از نوا بر من قیامت رفت و کس آگاہ نیست پیش محفل جز بم و زیر و مقام و راہ نیست
مطلب: میری نوا سے تو مجھ پر قیامت کا سماں گزر گیا ہے ۔ اور کسی کو اس کی خبر بھی نہیں ( میں نے اپنے نغمات خون جگر سے تحریر کیے ہیں ۔ اور انہیں عشق کی موسیقی سے سجایا ہے ۔ لیکن اہل بزم ان نغمات کے ظاہری پہلووَں سے تو با خبر ہیں لیکن انہیں ان نغمات میں پوشیدہ پیغام کی خبر نہیں ہے) ۔
در نہادم عشق با فکر بلند آمیختند نا تمام جاودانم کار من چوں ماہ نیست
مطلب: (کارکنانِ قضا و قدر) نے میری فطرت میں عشق کو بلند فکر سے ملایا ہے (میرا عشق صاحب عقل بھی ہے) ۔ میرا کام تو ہمیشہ نامکمل ہی رہتا ہے ۔ یہ چاند کی طرح نہیں جو کبھی بڑھ جاتا ہے اور کبھی کم ہو جاتا ہے ۔ عشق ہمیشہ بڑھتا ہی رہتا ہے ۔
لب فرو بند از فغان ، در ساز با درد فراق عشق تا آہے کشد از جذب خویش آگاہ نیست
مطلب: فریاد نہ کر، اپنے ہونٹ بند کر لے اور ہجر کا درد برداشت کرنے کی ہمت پیدا کر ۔ کیونکہ عشق جب آہ و فریاد کرتا ہے تو یوں لگتا ہے کہ اسے اپنے جنوں کی خبر نہیں (عشق میں تو رضائے محبوب ہی کو اہمیت حاصل ہے) ۔
شعلہ می باش و خاشاکے کہ پیش آید بسوز خاکیان را در حریم زندگانی راہ نیست
مطلب: شعلہ بن کر جو تنکا راستے میں آئے اسے جلا کر راکھ کر دے ۔ کیونکہ خاکی انسانوں کے لیے زندگی کے گھر میں داخل ہونے کا اور کوئی راستہ موجود نہیں ہے ۔
جرہ شاہینی بمرغان سحر صحبت مگیر خیز و بال و پر کشا پرواز تو کوتاہ نیست
مطلب: تو ایک نر شاہین ہے گھر کے پالتو پرندوں کے ساتھ میل جول اختیار کرنا تیرے لیے اچھا نہیں ۔ اٹھ اپنے بازو اور پر کھول ۔ کیونکہ تیری پرواز کم بلند نہیں ہے ۔ تو سب پرندوں سے اونچی پرواز کا مالک ہے) ۔
کرم شب تاب است شاعر در شبستان وجود در پر و بالش فروغے گاہ ہست و گاہ نیست
مطلب: شاعر محفل وجود میں جگنو کی مانند چمک رہا ہے ۔ اس کے بازووَں اور پروں میں کبھی روشنی ہوتی ہے اور کبھی نہیں ہوتی ۔ (شاعری کا وجدان کبھی طاری ہوتا ہے اور کبھی نہیں ہوتا) ۔
در غزل اقبال احوال خودی را فاش گفت زانکہ این نو کافر از آئین دیر آگاہ نیست
مطلب: اقبال نے اس غزل میں خودی کے احوال کو ظاہر کیا ہے ۔ کیونکہ یہ نیا نیا کافر ہے اسے مندر کے دستور عبادت سے آگاہ نہیں ہے (نئے کافر سے مراد یہ ہے کہ اقبال بزم صوفیاء میں نیا نیا وارد ہوا ہے ۔ اسے صوفیوں کے طور طریقوں کی خبر نہیں ) ۔
(۲۴)
شراب میکدہ من نہ یادگار جم است فشردہ جگر من بشیشہ عجم است
مطلب: میرے میکدے کی شراب میں ایرانی افکار و خیالات نہیں پائے جاتے ۔ میری اس عجمی صراحی یعنی فارسی شاعری میں جو شراب ہے وہ میرے جگر کا لہو ہے ( میں نے یہ خیالات کسی سے مستعار نہیں لیے) ۔
چو موج می تپد آدم بجستجوئے وجود ہنوز تا بہ کمر در میانہ عدم است
مطلب: انسان وجود کی تلاش میں دریا کی موج کی طرح تڑپ رہا ہے ۔ اور ابھی تک وہ کمر تک عدم کے درمیان ہے (اسے وجود کی تلاش ہے ۔ لیکن وجودِ مطلق تو اللہ کی ذات ہے ۔ انسان جتنی بھی ریاضت کر لے انسان ہی رہے گا ۔ البتہ انسان خدا کا مظہری وجود بننے کا اہل ہو سکتا ہے) ۔
بیا کہ مثل خلیل این طلسم در شکنیم کہ جز تو ہر چہ دریں دیر دیدہ ام صنم است
مطلب: آ کہ ہم باہم مل کر حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی طرح اس کائنات کے جادو کو توڑ ڈالیں ۔ کیونکہ تیرے (اللہ) کے سوا اس دنیا میں جو کچھ بھی دیکھا ہے وہ بت ہی ہیں (اللہ کے سوا کسی بھی چیز کی کوئی حیثیت نہیں ) ۔
اگر بسینہ این کائنات در نروی نگاہ را بہ تماشا گزاشتن ستم است
مطلب: اے انسان! اگر تو اس کائنات کے سینے میں (پوشیدہ) رازوں کی تہ تک نہ جاے گا تو پھر اپنی نگاہ کو نظارہَ ظاہری تک محدود رکھنا بھی ظلم ہے ۔
غلط خرامی ما نیز لذتے دارد خوشم کہ منزل ما دور و راہ خم بخم است
مطلب: صحیح راستہ تلاش نہ کر سکنا بھی ایک قسم کی لذت رکھتا ہے ۔ مجھے خوشی ہے کہ ہماری منزل دور اور ٹیڑھے راستوں پر مشتمل ہے ۔
تغافلے کہ مرا رخصت تماشا داد تغافل است و بہ از التفات دمبدم است
مطلب: اے محبوب! میں نے جب تیرے دیدار کی تمنا کی تو تو نے ایک ادائے دلبرانہ سے نگاہیں چرا لیں ۔ لیکن اس کا مجھے یہ فائدہ بھی ہوا کہ تیرے ناز و ادا کا نظارہ کرنے کا موقع مل گیا ۔ یہ تغافل ہر وقت کی توجہ اور التفات سے کہیں بہتر ہے ۔
مرا اگرچہ بہ بتخانہ پرورش دادند چکید از لب من آنچہ در دل حرم است
مطلب: یہ بات سچ ہے کہ مجھے بت خانہَ ہند میں پرورش کیا گیا ۔ لیکن اس بت خانہ میں رہتے ہوئے بھی میرے ہونٹوں سے جو بات بھی نکلی وہ حرم کے اصولوں کے عین مطابق تھی ۔
(۲۵)
لالہ صحرایم از طرف خیابانم برید در ہواے دشت و کہسار و بیابانم برید
مطلب: میں تو صحرا میں کھلنے والا لالہ ہوں (میرا باغ سے کیا کام) مجھے باغ سے لے جاوَ اور جنگل ، پہاڑ اور بیابان کی ہواؤں میں لے جاوَ ۔ (میری اصل عالم علوی ہے ۔ وہاں سے مجھے عالم دنیا میں لایا گیا ۔ اب مجھے پھر سے اسی عالم میں پہنچا دو ۔ اس شعر میں صحرا کنایہ ہے عالم علوی اور باغ کنایہ ہے عالم دنیا کا) ۔
روبہی آموختم از خویش دور افتادہ ام چارہ پردازان بآغوش نیستانم برید
مطلب: (عالم علوی) دنیا میں آ کر میں نے لومڑی کی عیاری و مکاری سیکھ لی ہے ۔ اور اپنے آپ کو بھول گیا ہوں ۔ اے چارہ گرو مجھے سرکنڈوں کے جنگل میں واپس لے جاوَ ۔
درمیان سینہ حرفے داشتم، گم کردہ ام گرچہ پیرم پیش ملاے و بستانم برید
مطلب: میں اپنے سینے میں (را ز کی جو بات ) محفوظ رکھے ہوئے تھا اسے میں نے کھو دیا ہے (اپنے رب سے کیا ہوا وعدہ بھلا بیٹھا ہوں ) گرچہ میں تجربہ کار اور عمر رسیدہ ہو چکا ہوں اس کے باوجود میں ابھی تک اپنے خالق سے کیا ہوا وعدہ بھولا ہوا ہوں ۔ مجھے از سر نو مدرسہ کے ملا کے پاس لے جاوَ تا کہ وہ مجھے میرا بھولا ہوا سبق پھر سے یاد دلا دے ۔
ساز خاموشم نواے دیگرے دارم ہنوز آنکہ بازم پردہ گرداند پئے آنم برید
مطلب: میری حیثیت ایک خاموش ساز جیسی ہے کیونکہ اس کے اپنے تاروں میں سے اپنے نغموں کی بجائے دوسروں کے نغمے نکل رہے ہیں ( میں اپنا اصل مقصد بھول گیا ہوں ) مجھے اس موسیقار کے حضور لے جاوَ جو مجھے پھر سے (نغمات سرمدی) سے آشنا کر دے ۔
در شب من آفتاب آن کہن داغے بس است این چراغ زیر فانوس از شبستانم برید
مطلب: میری سیاہ رات روشن کرنے کے لیے اسی پرانے (داغِ عشق) کے سورج کی روشنی کافی ہے ۔ فانوس میں رکھا یہ (عقل کا چراغ) میری رات کی بزم سے لے جاوَ (زندگی کی رات آفتاب عشق سے روشن ہوتی ہے عقل کے چراغ سے نہیں ) ۔
من کہ رمز شہریاری باغلامان گفتہ ام بندہ تقصیر دارم پیش سلطانم برید
مطلب: میں تو وہ ہوں کہ جس نے غلاموں کو بادشاہی کے اصول سمجھا دیے ہیں ۔ میں نے بادشاہ کے حضور گستاخی کی ہے ۔ مجھے اس کے پاس لے جاوَ ۔