(۳۱)
گرچہ می دانم کہ روزے بے نقاب آید بروں تا نپنداری کہ جان از پیچ و تاب آید بروں
مطلب: اگرچہ یہ بات میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ تو (اے محبوب) ایک روز بے نقاب میرے سامنے آ جائے گا ۔ لیکن تو یہ نہ سمجھ کہ اس طرح میری جان اضطراب و بے چینی سے نجات حاصل کر لے گی ۔ (کیونکہ عشق میں ہجر و وصال دونوں ہی بے قراری کا سبب بنے رہتے ہیں ) ۔
ضربتے باید کہ جان خفتہ برخیزد ز خاک نالہ کے بے زخمہ از تار رباب آید بروں
مطلب: کوئی (عشق) کی ایسی ضرب چاہیے کہ جسمِ خاکی کے اندر خفتہ روح بیدار کر دے (ایسی ضرب کے لیے کسی مرد کامل کی نظر درکار ہو گی) کیونکہ مضراب لگائے بغیر رباب کے تاروں سے نالے کس طرح باہر آئیں گے ۔
تاک خویش از گریہ ہاے نیم شب سیراب دار کز درون او شعاع آفتاب آید بروں
مطلب:اپنی انگور کی بیل (اپنے وجود کو) آدھی رات کے وقت (یادِ محبوب) میں رو رو کر سیراب کر ۔ تاکہ اس میں سے شراب کی بجائے سورج کی شعاعیں نمودار ہوں (خفتہ صلاحتیں بیدا ہو جائیں ) ۔
ذرہ بے مایہ ترسم کہ ناپیدا شوی پختہ تر کن خویش را تا آفتاب آید بروں
مطلب: تو (اے انسان) ایک بے قیمت ذرہ ہے ۔ مجھے خدشہ ہے تو فنا ہو جائے گا ۔ خود کو فنا سے بچانا ہے تو اپنے آپ میں قوت و توانائی پیدا کر تا کہ اس ذرہ سے سورج برآمد ہو ۔
در گزر از خاک و خود را پیکر خاکی مگیر چاک اگر در سینہ ریزی ماہتاب آید بروں
مطلب: اپنی حیثیت کی شناخت کر اور خود کو مٹی کے جسم والا نہ سمجھ ۔ اگر تو اپنا سینہ چاک کرے (جذبہ عشق میں ) تو تیرے سینے سے چاند طلوع ہو گا ۔
گر بروے تو حریم خویش را در بستہ اند سر بسنگ آستان زن لعل ناب آید بروں
مطلب: اگر تجھ پر (محبوب نے) اپنے گھر کے دروازے بند کر دیے ہیں تو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ۔ محبوب کی چوکھٹ پر اپنا سر ٹکرا دے اور پھر دیکھ خالص لعل باہر آ جائے گا ۔ درِ محبوب ہرگز نہ چھوڑ ۔ ایک نہ ایک دن محبوب کا دل پسیج جائے گا تو تیرے مقصد کا قیمتی لعل تجھے حاصل ہو جائے گا ۔
(۳۲)
کشادہ رو ز خوش و ناخوش زمانہ گزر ز گلشن و قفس و دام و آشیانہ گزر
مطلب: اس دنیا کی خوشی اور خاموشی کی پرواہ کیے بغیر زندہ دلی سے وقت گزارے (زندگی کی تکالیف خندہ پیشانی سے برداشت کرے) اور تیرے راستے میں جو چیز بھی آئے اس سے مسکراتے ہوئے گزر جا ۔
گرفتم ایں کہ غریبی و رہ شناس نہ بکوے دوست بانداز محرمانہ گزر
مطلب: مجھے معلوم ہے کہ تو یہاں اجنبی ہے اور تو راستوں سے بھی انجان ہے ۔ پھر بھی کوچہ محبوب سے اس طرح گزر جیسے کہ تو اسے اچھی طرح جانتا ہے ۔
بہر نفس کہ بر آری جہان دگرگوں کن دریں رباط کہن صورت زمانہ گزر
مطلب: ہر وہ سانس جو تیرے سینہ سے باہر نکلتی ہے اس سے اس دنیا کی تقدیر بدل دے اور اس دنیا کی قدیم سرائے سے زمانے کی مانند گزر جا ۔ اسی طرح تو بھی اپنے عمل سے دنیا میں انقلاب برپا کر دے ۔
اگر عنان تو جبریل و حور می گیرند کرشمہ بر دلشان ریز و دلبرانہ گزر
مطلب: اگر تیرے گھوڑے کی باگ جبریل فرشتہ اور جنت کی حوریں بھی پکڑ لیں تو پھر بھی ان کی طرف توجہ نہ کر ۔ اور منزل مقصود کی طرف مسلسل سفر جاری رکھ اور اپنے ناز و ادا کی جھلک ڈا ل کر محبوبانہ اندا زسے گزر جا ۔
(۳۳)
زندگی در صدف خویش گہر ساختن است در دل شعلہ فرو رفتن و نگداختن است
مطلب: زندگی کا فلسفہ اپنی سیپ کے اندر موتی بنانا ہے ۔ شعلہ کے دل میں اتر جانا ہے اور اس آگ عشق میں پگھلنا نہیں (بلکہ اس مٹی کو کندن بنانا ہے) ۔
عشق ازیں گنبد در بستہ بروں ساختن است شیشہ ماہ ز طاق فلک انداختن است
مطلب: عشق تو اس بند گنبد یعنی آسمان کی وسعتوں سے باہر نکل جانے کا عمل ہے ۔ عشق تو آسمان کے طاق سے کھڑکی سے چاند کا پیالہ لے کر نیچے پھینک دیتا ہے (اس کی حکمرانی زمان و مکان پر چھائی ہوئی ہے) ۔
سلطنت نقد دل و دیں ز کف انداختن است بہ یکے داد جہان بردن و جان باختن است
مطلب: سلطنت ایسی چیز ہے کہ دین اور دل دونوں ہاتھ سے جاتے ہیں ۔ ایک ہی داوَ میں جہاں فتح کر لینا اور ہار دینا ہے ۔ (اگر ملوکیت ہو تو دین ہاتھ سے جاتا رہتا ہے اور دنیا کی آسائشیں میسر ہوتی ہیں )جبکہ خلافت میں دین اور دنیا دونوں قائم رہتے ہیں ۔
حکمت و فلسفہ را ہمتے مردے باید تیغ اندیشہ بروے دو جہان آختن است
مطلب:حکمت اور فلسفہ کے لیے کسی (مردِ کامل) کی ضرورت پڑتی ہے ۔ یہ فکر کی تلوار دونوں جہانوں پر کھینچتا ہے ۔
مذہب زندہ دلان خواب پریشانے نیست از ہمیں خاک جہان دگرے ساختن است
مطلب: زندہ دلوں کا مذہب کوئی پریشان خواب نہیں ہے ۔ ان کا مذہب تو اس مٹی سے ایک اور نیا جہان پیدا کرتا ہے (زندہ دل اپنی دنیا خود بساتے ہیں وہ دوسروں کی خواہشوں کے تابع نہیں ہوتے) ۔
(۳۴)
بروں زیں گنبد در بستہ پیدا کردہ ام راہے کہ از اندیشہ برتر می پرد آہ سحر گاہے
مطلب: میں نے اس بند دروازے کے گنبد میں ایک راستہ ڈھونڈ لیا ہے ۔ کیونکہ میری صبح صادق کی آہ میرے خیال سے بھی زیادہ بلند پرواز ہے ۔
تو اے شاہیں نشیمن در چمن کردی از ان ترسم ہواے او ببال تو دہد پرواز کوتاہے
مطلب: (اے شاہین) تو نے اپنا نشیمن چمن میں بنا لیا ہے(شاہین کی سخت کوشی اور بلند پروازی ترک کر کے آرام طلبی اختیار کر لی ہے یہ بات شاہین کی فطرت کے خلاف ہے ) اس چمن کی ہوا تیرے بازووَں کو کم بلندی پر اڑانے والی پرواز عطا کر دے گی ۔
غبارے گشتہ آسودہ نتوان زیستن اینجا بہ باد صبحدم در پیچ و منشیں بر سر راہے
مطلب: اے مسلمان کیا تو راستے کی گرد بن گیا ہے اگر ایسی بات ہے تو اس جگہ آرام کہاں صبح کی تازہ ہوا میں لپٹ اور راستے میں نہ بیٹھ (تجھے کندن بننے کے لیے راہ عمل اختیار کرنا ہو گی) ۔
ز جوے کہکشان بگزر، ز نیل آسمان بگزر ز منزل دل بمیرد گرچہ باشد منزل ماہے
مطلب: آرام طلبی سے زندگی بے کیف ہو جاتی ہے ۔ اگر زندہ رہنا ہے تو کہکشاں کی ندی سے گزر جا اور آسمان کے نیلے سمندر سے بھی گزر جا ۔ کیونکہ زندگی چلتے رہنے کا نام ہے ۔
اگر زان برق بے پروا درون او تہی گردد بچشمم کوہ سینا می نیرزد با پرکاہے
مطلب: اگر اس بے نیا زبجلی سے (جو اللہ نے حضرت موسیٰ اور کوہ طور پر پھینکی تھی) کوہ طور کا سینہ خالی ہو جائے تو میری نظروں میں کوہ سینا کی حیثیت ایک پیرکاہ (تنکے) کے برابر بھی نہیں ۔
چسان آداب محفل را نگہ دارند و می سوزند مپرس از ما شہیدان نگاہ بر سر راہے
مطلب: نگاہ کے شہید کس طرح محفل کے آداب نگاہ میں رکھتے ہیں اور کس طرح پروانے کی طرح شمع پر جلنے کے لیے آمادہ ہوتے ہیں ۔ یہ بات سرِ راہ نگاہوں کے شہیدوں سے مت پوچھ ۔
پس از من شعر من خونند و دریابند و میگویند جہانے را دگرگون کرد یک مرد خود آگاہے
مطلب: جب لوگ میرے اشعار پڑھیں گے انہیں سمجھیں گے اور پھر یہ کہیں گے کہ ایک خود آگاہ مردِ قلندر نے دنیا کو تہ و بالا کر دیا ہے (اپنی شاعری سے لوگوں میں انقلاب کی فکر پیدا کر دی ہے) ۔
(۳۵)
گنہگار غیورم مزد بے خدمت نمی گیرم از ان داغم کہ بر تقدیر او بستند تقصیرم
مطلب: میں گناہگار تو ہوں لیکن غیور ہوں ۔ محنت کے بغیر مزدوری لینا مجھے اچھا نہیں لگتا ۔ میرے سینے میں اس بات کا داغ ہے کہ قدرت نے اس کی (ابلیس) کی تقدیر سے میری تقصیر وابستہ کر دی ہے (آدمی گناہ کرنے کے بعد اسے ابلیس کی کارستانی قرار دیتا ہے اور خود جنت کا حقدار بن جاتا ہے) ۔
ز فیض عشق و مستی بردہ ام اندیشہ را آنجا کہ از دنبالہ چشم مہر عالمتاب می گیرم
مطلب: عشق و مستی کے فیض سے میں اپنی فکر اس مقام تک لے گیا ہوں کہ میں جہاں کو روشن کرنے والے سورج کے پیچھے جا کر اس کی روشن آنکھ بند کر دیتا ہوں ۔
من از صبح نخستیں نقشبند موج و گردابم چو بحر آسودہ میگردد ز طوفان چارہ بر گیرم
مطلب: میں روز ازل سے موج اور بھنور کے نقش بنا رہا ہوں (میرا وجود ابتدائے آفرینش ہی سے کائنات میں شور برپا کئے ہوئے ہے) جب کبھی زندگی کے سمندر میں سکون آنے لگتا ہے تو میں طوفانِ عشق سے اس میں ہلچل مچا دیتا ہوں ۔
جہان را پیش ازیں صد بار آتش زیر پا کردم سکون و عافیت را پاک می سوزد بم و زیرم
مطلب: اس سے پہلے میں نے (اپنے عشق سے) اس جہان کو سینکڑوں بار بے قرار کیا ہے ۔ میرے عشق کا زیر و بم سکون و آرام کو یکسر جلا دیتا ہے ۔
از ان پیش بتان رقصیدم و زنار بربستم کہ شیخ شہر مرد با خدا گردد ز تکفیرم
مطلب: میں نے بتوں کے روبرو اس لیے رقص کیا اور برہمنوں کا زنار پہنا کہ شاید میرے اس گناہ سے فقیہہ شہر خدا پر ایمان لے آئے (میرے اس کفر سے مجھ پر فتوے لگانے والا شیخ شاید اپنے طرز عمل کو تبدیل کر لے) اور دوسرے کے عیب نکالنے کی بجائے اپنی اصلاح کر لے ۔
زمانے رم کنند از من زمانے بامن آمیزند دریں صحرا نمی دانند صیادم کہ نخچیرم
مطلب: (لوگوں کی کیفیت یہ ہے) کہ کسی وقت تو مجھ سے دور بھاگتے ہیں اور کسی وقت مجھ سے میل جو بڑھا لیتے ہیں ۔ وہ ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ میں اس دنیا میں شکار ہو کہ شکاری ( میں ان کا خیر خواہ ہوں یا بدخواہ) ۔
دل بے سوز کم گیرد نصیب از صحبت مردے مس تابیدہ آور کہ گیرد در تو اکسیرم
مطلب: جس شخص کا دل سوز سے خالی ہو وہ مردِ خدا کی صحبت سے فیض یاب نہیں ہوتا ۔ چمکدار پیتل میرے پاس لے آ کہ میری اکسیر کے عمل سے یہ کندن بن جائے ۔