Please wait..

غزل نمبر۴۴

 
شعلہ در آغوش دارد عشق بے پرواے من
بر نخیزد یک شرار از حکمت نازاے من

مطلب: میرا من موجی عشق اپنی آغوش میں شعلہ لیے ہوئے ہے ۔ میری بانچھ عقل میں ایک چنگاری بھی نہیں چھوٹتی ۔

 
چون تمام افتد سراپا ناز می گردد نیاز
قیس را لیلیٰ ہمی نامند در صحرائے من

مطلب: عشق جب کامل ہو جائے تو سراپا حسن بن جاتا ہے ۔ میرے صحرا میں مجنوں کو لیلیٰ کا نام دیا جاتا ہے ۔

 
بہر دہلیز تو از ہندوستان آوردہ ام
سجدہ شوقے کہ خون گردید در سیماے من

مطلب: آپﷺ کی چوکھٹ کے واسطے ہندوستان سے لایا ہوں وہ سجدہ شوق جو میری پیشانی میں لہو ہو گیا تھا ۔

 
تیغ لا در پنجہ این کافر دیرینہ دہ
باز بنگر در جہان ہنگامہ الائے من

مطلب: اس پرانے کافر کے ہاتھ میں لا کی تلوار دے پھر دیکھ دنیا میں میرا ہنگامہ الہ (لا اور الا سے کلمہ طیبہ مراد ہے)

 
گردشے باید کہ گردون از ضمیر روزگار
دوش من باز آرد اندر کسوت فردائے من

مطلب: ایسی گردش چاہیے کہ آسمان زمانے کے ضمیر کے اندر میں سے میرے مستقبل کے لباس میں میرا ماضی پھیر لائے ۔

 
از سپہر بارگاہت یک جہان وافر نصیب
جلوہ داری دریغ از وادی سیناے من

مطلب: تیری اونچی جناب ﷺ سے ایک دنیا نہال ہے ۔ ایسا جلوہ رکھتے ہوئے بھی میری وادی سینا سے دریغ (میری وادی سینا آپ کے جلوے سے محروم ہے) ۔

 
با خدا در پردہ گویم با تو گویم آشکار
یا رسول اللہ او پنہان و تو پیداے من

مطلب : میں خدا سے تو پوشیدہ پوشیدہ عرض کرتا ہوں مگر آپ ﷺ سے تو کھلم کھلا عرض کرتا ہوں یا رسول اللہ وہ مجھ سے پنہاں سے اور آپ آشکار ۔