دُعا
یارب درون سینہ دل باخبر بدہ در بادہ نشہ را نگرم، آن نظر بدہ
مطلب: یارب میرے سینے میں حقیقت کی خبر رکھنے والا دل عطا کر دے ۔ مجھے ایسی نظر دے کہ میں جام شراب میں نشہ محسوس کر سکوں ۔ اقبال خدا سے ایسے دل اور نظر کی تمنا کر رہے ہیں جو اسے کائنات کے اسرار کی حقیقت سے آگاہ کر دے ۔
این بندہ را کہ بانفس دیگران نزیست یک آہ خانہ زاد مثال سحر بدہ
مطلب: اے خدا اپنے بندے کو خلوص اور محبت سے بھری ہوئی آہِ سحر عطا کر دے کیونکہ تیرا یہ بندہ دوسروں کے سہارے جینا نہیں چاہتا ۔ اسے اپنی ذات کی پہچان دے دے ۔ یہ پہچان اس کی زندگی کی رات کو صبح میں تبدیل کر دے گی ۔
سلیم، مرا بجوئے تنک مایہ مپیچ جولانگہے بوادی و کوہ و کمر بدہ
مطلب: میری فکر اور سوچ ایک سیلاب کی مانند ہے اسے کم پانی والی ندی میں مت الجھا ۔ میرے لافانی پیغام کے لیے وادی، پہاڑ اور گھاٹیوں جیسی وسعت درکار ہے ۔
سازی اگر حریف یم بیکران مرا با اضطراب موج، سکون گہر بدہ
مطلب: اے خدا اگر تو مجھے اس بے کنار سمندر کا شناور کر دے تو جس طرح بے قراری موج میں موتی کا سکون پوشیدہ ہوتا ہے اسی طرح مجھے بھی سکون حاصل ہو گا ۔ میرے تفکر کی موجیں ہر دم بے قرار ہیں اور اپنے اندر پوشیدہ علم کے خزانے لٹانے کے لیے تیار ہیں ۔
شاہین من بصید پلنگان گزاشتی ہمت بلند و چنگل ازیں تیز تر بدہ
مطلب: اے خدا تو نے اگر میرے شاہین کو چیتوں کے شکار کے لیے چھوڑا ہے تو اسے اور زیادہ ہمت عطا کر ۔ معاشرے کی اصلاح کے لیے جدوجہد آسان کام نہیں ہوتا اس کے لیے آہنی عزم و ارادے درکار ہوتے ہیں ۔
رفتم کہ طائران حرم را کنم شکار تیرے کہ نافگندہ فتد کارگر بدہ
مطلب: میں حرم کے پرندوں کے شکار کے لیے جاتا ہوں ۔ اے خدا میرے ترکش میں ایسا تیر عطا کر دے جو چلائے بغیر ہی کارگر ہو ۔ اقبال نے اپنے کلام کے ذریعے مسلمانوں خصوصاً نوجوان نسل اور دین فروش علماء اور نام نہاد صوفیا کی اصلاح کا کام شروع کیا ہے ۔ یہاں طائران حرم سے مراد مسلمان ہیں ۔
خاکم بہ نور نغمہ داوَد بر فروز ہر ذرہ مرا پر و بال شرر بدہ
مطلب: اے خدا میری حیثیت تو ایک بے نور مٹی جیسی ہے ۔ تو اس مٹی کو نغمہ داوَد کے نور سے منور کر دے اور میری خاک کے ہر ذرے کو چنگاری کے بال و پر عطا کر دے ۔ جس طرح نغمہ داوَد سے انسان جن پرند اور دوسرے جانور مسحور ہو جاتے تھے اس طرح میرے کلام کی شیرینی سے بھی اہل جہاں کو میرا ہمنوا بنا دے ۔