پیغام سلطان شہید بہ رود کاویری
(دریائے کاویری کے نام سلطان شہید کا پیغام )
حقیقتِ حیات و مرگ و شہادت
رود کاویری یکے نرمک خرام خستہ شاید کہ از سیر دوام
مطلب: اے دریائے کاویری ذرا آہستہ چل ، شاید تو مسلسل چلتے رہنے سے تھک گیا ہے ۔
در کہستان عمرہا نالیدہ ئی راہ خود را با مژہ کاویدہ ئی
مطلب: تو مدتوں سے پہاڑوں میں رو رہا ہے اور تو نے اپنے راستے کو اپنی پلکوں سے کھودا ہے ۔
اے مرا خوشتر ز جیحون و فرات اے دکن را آب تو آب حیات
مطلب: اے کاویری تو مجھے جیحون اور فرات جیسے دریاؤں سے بھی زیادہ عزیز ہے ۔ اے کہ دکن کے لیے تیرا پانی آب حیات ہے ۔
آہ شہرے کو در آغوش تو بود حسن نوشین جلوہ از نوش تو بود
مطلب: آہ و شہر جو کبھی تیری آغوش میں تھا ، اس شہر کا شیریں جلووَں والا حسن تیرے پانی ہی کے باعث تھا ۔ مراد سرنگا پٹنم شہر ہے جو سلطان کا دارالحکومت تھا ۔
کہنہ گردیدی شباب تو ہمان پیچ و تاب و رنگ و آب تو ہمان
مطلب: اگرچہ تو بوڑھا ہو گیا ہے لیکن تیرا شباب ابھی تک برقرار ہے ۔ تیرا پیچ و تاب اور تیرا رنگ و آب اسی طرح ہے ۔
موج تو جز دانہ گوہر نزاد طرہ تو تا ابد شوریدہ باد
مطلب: تیری موج نے موتی کے ایک دانے کے سوا کچھ پیدا نہیں کیا ۔ خدا کرے تیرا طرہ ابد تک شوریدہ رہے ۔
اے ترا سازے کہ سوز زندگی است ہیچ می دانی کہ این پیغام کیست
مطلب: اے دریا تیری لہروں کا ساز زندگی کا سوز پیدا کر رہا ہے ۔ کیا تو جانتا ہے کہ یہ پیغام کس کی طرف سے ہے
آنکہ میکردی طواف سطوتش بودہ آئینہ دار دولتش
مطلب: یہ وہ شخص ہے جس کی سطوت و شان کا تو طواف کرتا رہا ہے اوراس کی سلطنت کا آئینہ دار رہا ہے ۔
آنکہ صحراہا ز تدبیرش بہشت آنکہ نقش خود بخون خود نوشت
مطلب: وہ جس کی تدبیر نے بہت سے صحرا کو بہشت بنا دیا ۔ وہ ہستی (ٹیپو) جس نے اپنے خون سے اپنا نقش تحریر کیا ۔
آنکہ خاکش مرجع صد آرزوست اضطراب موج تو از خون اوست
مطلب: وہ کہ جس کی خاک ہزاروں آرزووں کا مرجع ہے ۔ تیری لہروں میں بیقراری اسی کے خون سے ہے ۔
آنکہ گفتارش ہمہ کردار بود مشرق اندر خواب و او بیدار بود
مطلب: وہ (عظیم انسان ٹیپو) کہ جس کی گفتار پورے طور پر کردار تھی، اس وقت جب مشرق سویا ہوا تھا وہ بیدار تھا ۔
اے من و تو موجے از رود حیات ہر نفس دیگر شود این کائنات
مطلب: اے کہ میں اور تو (کاویری) دونوں زندگی کی ندی کی لہریں ہیں ۔ یہ کائنات ہر لمحہ بدلتی رہتی ہے ۔
زندگانی انقلاب ہر دمے است زانکہ او اندر سراغ عالمے است
مطلب: زندگی ہر لمحے کا انقلاب ہے ۔ اس لیے کہ وہ ہر پل ایک نئے عالم کے سراغ میں لگی رہتی ہے ۔
تار و پود ہر وجود از رفت و بود این ہمہ ذوق نمود از رفت و بود
مطلب: ہر وجود کا تانا بانا رفت و بود (ماضی) سے ہے، یہ سارا ذوق نمود اسی رفت و بود ہی سے ہے یعنی کائنات کا وجود ہی فنا پر قائم ہے ۔
جادہ ہا چون راہروان اندر سفر ہر کجا پنہان سفر پیدا حضر
مطلب: راستے بھی مسافروں کی طرف سفر میں رہتے ہیں ، ہر جگہ سفر پوشیدہ اور حضر (قیام) ظاہر ہے ۔
کاروان و ناقہ و دشت و نخیل ہر چہ بینی نالد از درد رحیل
مطلب: قافلہ، اونٹنی اور بیابان اور کھجور کا درخت جس کو بھی تم دیکھو گے وہ کوچ کے درد کے باعث رو رہا ہو گا ۔
در چمن گل میہمان یک نفس رنگ و آبش امتحان یک نفس
مطلب: چمن میں پھول ایک پل کا مہمان ہوتا ہے ۔ اس کا رنگ اور اس کی چمک دمک ایک پل کا امتحان ہے ۔
موسم گل ماتم و ہم ناے و نوش غنچہ در آغوش و نعش گل بدوش
مطلب: موسم گل کیا ہے یہ ماتم بھی ہے اور پینے پلانے کا عالم بھی ہے ۔ غنچہ اس کی آغوش میں ہوتا ہے اور پھول کی نعش اس کے کندھوں پر ہوتی ہے ۔
لالہ را گفتم یکے دیگر بسوز گفت راز ما نمی دانی ہنوز
مطلب: میں نے لالہ کے پھول سے کہا کہ تو تھوڑی دیر کے لیے مزید جل ۔ وہ بولا کہ شاید تو ابھی تک ہمارے راز سے آگا ہ نہیں ہے ۔
از خس و خاشاک تعمیر وجود غیر حسرت چیست پاداش نمود
مطلب: خس و خاشاک ہی سے وجود کی تعمیر ہے ۔ نمود کی سزا حسرت کے سوا او رکیا ہے
در سراے ہست و بود آئی میا از عدم سوے وجود آئی میا
مطلب: کیا تو بقا و فنا کی سرائے (دنیا ) میں آنا چاہتا ہے ، نہ آ ۔ کیا تو عدم سے وجود کی طرف آنا چاہتا ہے نہ آ ۔
ور بیائی چون شرار از خود مرو در تلاش خرمنے آوارہ شو
مطلب: اور اگر تو آ ہی جاتا ہے تو پھر چنگاری کی طرح خود سے مت گزر کسی کھلیان کی تلاش میں آوارہ ہو جا، نکل جا ۔
تاب و تب داری اگر مانند مہر پا بنہ در وسعت آباد سپہر
مطلب: اگر تجھ میں سورج کی طرح چمک اور گرمی ہے تو پھر تو آسما نوں کی وسعتوں میں پاؤں رکھ عمل سے ۔
کوہ و مرغ و گلشن و صحرا بسوز ماہیان را در تہ دریا بسوز
مطلب: پہاڑ اور پرندہ اور باغ و صحرا سب کو جلا دے بلکہ مچھلیوں کو سمندر کی تہہ میں جلا ڈال ۔
سینہ داری اگر در خورد تیر در جہان شاہین بزی، شاہین بمیر
مطلب: اگر تیرا سینہ تیر کھانے کے قابل ہے تو پھر تو دنیا میں شاہیں کی طرح زندگی بسر کر اور شاہیں بن کر مر ۔
زانکہ در عرض حیات آمد ثبات از خدا کم خواستم طول حیات
مطلب: زندگی پیش کر دینے سے ہی اس کی بقا ہے اس لیے طویل زندگی نہیں مانگی ۔
زندگی را چیست رسم و دین و کیش یک دم شیری از صد سال میش
مطلب: زندگی کے لیے رسم و دین اور مسلک کیا چیز ہے شیر کا ایک پل بھیڑ کے سو سال (زندہ رہنے ) سے بہتر ہے(یہ فقرہ ٹیپو نے اپنی شہادت کے وقت کہا تھا ۔ ) یعنی شیر بن کر رہو اور شیر ہی کی طرح مرو ۔
زندگی محکم ز تسلیم و رضاست موت نیرنج و طلسم و سیمیاست
مطلب: زندگی میں استحکام تسلیم و رضا سے پیدا ہوتا ہے اور موت تو نیرنگ و طلسم اور کیمیا ہے ۔ (تسلیم و رضا سے مراد ہے انسان کا اللہ کی رضا میں اپنی مرضی کو فنا کر دینا اور اس کی رضا کے مطابق زندگی بسر کرنا) ۔
بندہ حق ضیغم و آہوست مرگ یک مقام از صد مقام اوست مرگ
مطلب: بندہ حق شیر ہے جب کہ موت اس کے لیے ہرن ہے ۔ اس کی سینکڑوں مقامات میں سے موت ایک مقام ہے ۔
می فتد بر مرگ آن مرد تمام مثل شاہینے کہ افتد بر حمام
مطلب: وہ مرد کامل (بندہ حق) موت پر اس طرح جھپٹتا ہے جس طرح شاہین کبوتر پر جھپٹتا ہے ۔
ہر زمان میرد غلام از بیم مرگ زندگی او را حرام از بیم مرگ
مطلب: (نفس کا )غلام موت کے خوف سے ہر وقت مرتا ہے اور موت کے ڈر سے اس کی زندگی اس پر حرام ہو جاتی ہے ۔
بندہ آزاد را شانے دگر مرگ او را می دہد جانے دگر
مطلب: جبکہ بندہ آزاد کی شان ہی اور ہے ۔ موت اسے ایک نئی جان دیتی ہے یعنی جہاد میں شہادت پا کر وہ حیات جاوید پا لیتا ہے ۔
او خود اندیش است مرگ اندیش نیست مرگ آزادان ز آنے بیش نیست
مطلب: بندہ آزاد اپنی فکر کرتا ہے ۔ موت کے بارے میں نہیں سوچتا یا فکر نہیں کرتا ۔ آزاد لوگوں کی موت ایک پل سے زیادہ کی نہیں ہوتی ۔
بگزر از مرگے کہ سازد با لحد زانکہ این مرگ است مرگ دوام دود
مطلب: اس موت سے گزر جا جو قبر سے موافقت کرتی ہے ۔ یہ یا اس قسم کی موت تو چرندوں ، پرندوں اور درندوں کی موت ہے ۔
مرد مومن خواہد از یزدان پاک آن دگر مرگے کہ برگیرد زخاک
مطلب: مرد مومن خدائے پاک سے اس موت کی آرزو رکھتا ہے جو اسے مٹی سے اٹھا لے ۔
آن دگر مرگ انتہاے راہ شوق آخریں تکبیر در جنگاہ شوق
مطلب: وہ دوسری موت کیا ہے، وہ راہ شوق کی انتہا ہے ۔ اور شوق کے ہنگامہ میں آخری تکبیر ہے (جہاد میں اللہ اکبر کہہ کر جان کی قربا نی دینا عشق و محبت کی آخری منزل ہے ۔ )
گرچہ ہر مرگ است بر مومن شکر مرگ پور مرتضیٰ چیزے دگر
مطلب: اگرچہ مرد مومن کے لیے ہر موت شکر کی طرح شیریں ہے لیکن حضرت علی مرتضی ٰعلیہ السلام کے فرزند (امام حسین علیہ السلام جنھوں نے باطل قوت سے ٹکرا کر کربلا میں شہادت پائی ) کی موت کچھ اور ہی چیز ہے ۔
جنگ شاہان جہان غارت گری است جنگ مومن سنت پیغمبری است
مطلب: دنیا کے بادشاہوں کی جنگ محض لوٹ مار کے لیے ہوتی ہے جبکہ مومن کی جنگ سنت پیغمبر ہے ۔
جنگ مومن چیست ہجرت سوے دوست ترک عالم اختیار کوے دوست
مطلب: مومن کی جنگ کیا ہے وہ محبوب حقیقی کی طرف ہجرت کرنا ہے اور دنیا چھوڑ دینا اور دوست کے کوچے کی طرف جانا ہے ۔
آنکہ حرف شوق با اقوام گفت جنگ را رہبانی اسلام گفت
مطلب: وہ ذات گرامی (رسول اللہ ﷺ) کہ جس نے قوموں کو عشق کی بات بتائی انھوں نے جنگ (جہاد) کو اسلام کی رہبانیت کہا ہے ۔
کس نداند جز شہید این نکتہ را کو بخون خود خرید این نکتہ را
مطلب: یہ جو حضورنے فرمایا ہے اس نکتہ کو شہید کے سوا اور کوئی نہیں سمجھتا ۔