در معنی این کہ ملت محمدیہ نہایت زمانی ہم ندارد کہ دوام این ملت شریفہ موعود است
(ملت محمدیہ بربنائے وعدہ دوام حدود زمانے سے بھی آزاد ہے)
در بہاران جوش بلبل دیدہ ئی رستخیز غنچہ و گل دیدہ ئی
مطلب:تو نے بہار کے موسم میں بلبل کاجوش و خروش تو دیکھا ہو گا ۔ باغ میں ہر طرف کلیوں اور پھولوں کا ہنگامہ بھی دیکھا ہو گا یعنی کثرت سے پھول کھلے ہیں ۔
چوں عروسان غنچہ ہا آراستہ از زمین یک شہر انجم خاستہ
مطلب: کلیاں دلہنوں کی طرح آراستہ ہوتی ہیں ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے گویا زمین سے ستاروں کی پوری بستی نکل آئی ۔
سبزہ از اشک سحر شوئیدہ ئی از سرود آب جو خوابیدہ ئی
مطلب: سبزے کی کیفیت عجیب ہے ۔ نہر کا پانی لوریاں گا گا کر اسے سلاتا ہے ۔
غنچہ ئی بر می دمد از شاخسار گیردش باد نسیم اندر کنار
مطلب: ایک غنچہ شاخ سے پھوٹ کر نکلتا ہے ۔ باد نسیم اسے اپنی آغوش میں لے لیتی ہے ۔
غنچہ ئی از دست گلچین خون شود از چمن مانند بو بیرون رود
مطلب: ایک غنچہ پھول چننے والے کے ہاتھ سے ٹوٹتا ہے اور خوشبو کی مانند باغ سے باہر نکل جاتا ہے ۔
بست قمری آشیان بلبل پرید قطرہ ی شبنم رسید و بو رمید
مطلب: قمری گھونسلا بنا لیتی ہے بلبل اڑ جاتی ہے ۔ شبنم کا قطرہ آ جاتا ہے اور خوشبو رخصت ہو جاتی ہے ۔
رخصت صد لالہ ی ناپایدار کم نسازد رونق فصل بہار
مطلب: اسی طرح ہزاروں گل لالہ پیدا ہوتے ہیں ۔ تھوڑی دیر کے لیے چمن کی رونق بنتے ہیں اور مرجھا جاتے ہیں ۔ تب بھی فصل بہار کی رونق نہیں گھٹتی ۔
از زیان گنج فرووانش ہمان محفل گلہای خندانش ہمان
مطلب: اس نقصان کے باوجود اس کے خزانے میں بہتات کا وہی عالم ویسے کا ویسا رہتا ہے ۔ ہنسنے والے پھولوں کی محفل بدستور سجی رہتی ہے ۔
فصل گل از نسترن باقی تر است از گل و سرو و سمن باقی تر است
مطلب: سیوتی، گل ، چمبیلی کے پھول کھلتے ہیں اور مرجھا جاتے ہیں ۔ بہار کی فصل ان سب سے زیادہ پائیدار ہوتی ہے اور باقی رہتی ہے ۔
کان گوہر پروری گوہر گری کم نگردد از شکست گوہری
مطلب: جس کان میں گوہر بنتے اور پرورش پاتے ہیں وہ ایک گوہر کے ٹوٹ جانے سے قدروقیمت میں گھٹ نہ جائے گی اور اس کی گوہر آفرینیوں میں کوئی فرق نہ آئے گا ۔
صبح از مشرق ز مغرب شام رفت جام صد روز از خم ایام رفت
مطلب : مشرق سے صبحیں اور مغرب سے شا میں آتی جاتی رہتی ہیں ۔ زمانے کے خم سے سینکڑوں دنوں کا جام نکل جاتا ہے
بادہ ہا خوردند و صہبا باقی است دوشہا خون گشت و فردا باقی است
مطلب: کئی لوگ آئے اور شراب پی گئے لیکن شراب بدستور باقی رہی ۔ کئی گزرے ہوئے کل خون میں نہا گئے ، گزر گئے ۔
ہمچنان از فردہائی پی سپر ہست تقویم امم پایندہ تر
مطلب: اسی طرح افراد زندگی کی منزلیں طے کرتے جاتے ہیں اور قو میں اپنی جگہ باقی ہیں بلکہ افراد کی آمد و رفت سے قوموں کا استحکام زیادہ پائیدار ہوتا ہے ۔
در سفر یار است و صحبت قائم است فرد رہ گیر است و ملت قائم است
مطلب: اگرچہ ایک دوست سفر میں ہے لیکن محفل قائم رہتی ہے ۔ افراد آتے ہیں اور نکل جاتے ہیں جبکہ ملت کا قیام اپنی جگہ برقرار ہے ۔
ذات او دیگر صفاتش دیگر است سنت مرگ و حیاتش دیگر است
مطلب: فرد کی ذات الگ ہے اور ملت کی صفات الگ ہیں ۔ ان دونوں کی موت و حیات کے قواعد و اصول بھی الگ ہیں ۔
فرد بر می خیزد از مشت گلی قوم زاید از دل صاحب دلی
مطلب: فرد مٹی کی مٹھی سے پیدا ہوتا ہے اور قوم ان مقاصد اور اصول کی بنا پر ترکیب پاتی ہے جو ایک صاحب دل کے قلب میں پیدا ہوتے ہیں ۔
فرد پور شصت و ہفتاد است و بس قوم را صد سال مثل یک نفس
مطلب: فرد کی عمر عموماً ساٹھ ستر سال کی ہوتی ہے اور قوم کی زندگی میں سو سال بھی زیادہ سے زیادہ ایک سانس کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
زندہ فرد از ارتباط جان و تن زندہ قوم از حفظ ناموس کہن
مطلب: فرد کی زندگی اس امر پر موقوف ہے کہ جان اور جسم کے درمیان ربط تعلق اور میل جول قائم رہے ۔ اس تعلق میں خلل پیدا ہوتے ہی فرد کی زندگی ختم ہو جائے گی ۔ لیکن قوم کی زندگی جان و تن کے ربط پر نہیں بلکہ قدیم روایات کی حفاظت پر موقوف ہوتی ہے ۔
مرگ فرد از خشکی رود حیات مرگ قوم از ترک مقصود حیات
مطلب: فرد زندگی کی ندی خشک ہوتے ہی مر جاتا ہے ۔ لیکن قوم جب تک اپنی زندگی کے مقاصد نہ چھوڑے موت کے گھاٹ نہیں اترتی ۔
گرچہ ملت ہم بمیرد مثل فرد از اجل فرمان پذیرد مثل فرد
مطلب: اگرچہ افراد کی طرح قو میں بھی مر جاتی ہیں ۔ لیکن ان کے لیے بھی قدرت کی طرف سے ایک خاص وقت مقرر ہے ۔
امت مسلم ز آیات خداست اصلش از ہنگامہ ی قالو بلیٰ ست
مطلب: لیکن امت مسلمہ ہرگز نہیں مرے گی کیونکہ یہ خدا کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے ۔ اس کا وجود اس وقت سے چلا آتا ہے جب ابتدائے آفرینش میں کائنات کی روحوں نے اللہ تعالیٰ سے عہد باندھا تھا کہ بے شک تو ہی ہمارا پروردگار ہے ۔
از اجل این قوم بی پرواستی استوار از نحن نزلناستی
مطلب: ملت اسلامیہ موت سے بالکل بے پروا ہے اسے موت آ ہی نہیں سکتی کیونکہ خدا نے فرمایا کہ بلا شبہ ہم نے الذکر (قرآ ن) اتارا ہے اور بلاشبہ خود ہمیں اس کے نگہبان ہیں (سورہ حجر) کی بشارت کے ذریعے سے ہماری پائیداری اور استواری کا وعدہ کر رکھا ہے ۔
ذکر قائم از قیام ذاکر است از دوام او دوام ذاکر است
مطلب: ذکر (قرآن) اس وقت قائم رہ سکتا ہے جب تک ذاکر یعنی ذکر کرنے والا موجود ہو ۔ جب ذکر کے دوام کا وعدہ ہو چکا تو یہ مان لینے میں کوئی دقت باقی نہیں رہتی کہ ذاکر کے دوام کا بھی وعدہ ہو چکا ۔
تا خدا ،این یطفءو، فرمودہ است از فسردن این چراغ آسودہ است
مطلب: جب قرآن مجید میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ دین حق کی روشنی پوری کیے بغیر رہنے والا نہیں ۔ اگرچہ کافروں کو پسند نہ آئے تو اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ ہماری ملت کا چراغ بجھنے سے محفوظ ہے یعنی ہمیشہ روشن رہے گا اور کبھی نہ بجھے گا ۔
امتی در حق پرستی کاملی امتی محبوب ہر صاحبدلی
مطلب: ہم وہ امت ہیں جس نے حق پرستی میں درجہ کمال حاصل کر لیا اور جو ہر صاحب دل کو محبوب و عزیز ہے ۔
حق برون آورد این تیغ اصیل از نیام آرزوہای خلیل
مطلب: اللہ تعالیٰ نے اس تیز ترین تلوار کو حضرت ابراہیم کی آرزووَں اور دعاؤں کے نیام سے نکالا ۔
تا صداقت زندہ گردد از دمش غیر حق سوزد ز برق پیہمش
مطلب: یہی امت ہے جس کے دم سے حق و صداقت زندہ ہوتے ہیں اور اس سے جو بجلیاں پے در پے کوند رہی ہیں وہ غیر حق یعنی باطل کو جلا کر راکھ کر دیتی ہیں ۔
ما کہ توحید خدا را حجتیم حافظ رمز کتاب و حکمتیم
مطلب: ہم خدا کی توحید کے لیے دلیل و حجت ہیں ۔ ہمیں خدا نے کتاب اور حکمت کے بھیدوں کا محافظ بنا دیا ہے ۔
آسمان با ما سر پیکار داشت در بغل یک فتنہ ی تاتار داشت
مطلب: ہم کو آسمان سے ہمیشہ دشمنی رہی اور ہم سے الجھنے پر آمادہ رہا ۔ اس سلسلے میں اس کی بغل میں ایک فتنہ تاتار تھا ۔
بندہا از پا گشود آن فتنہ را بر سر ما آزمود آن فتنہ را
مطلب: پھر یکایک اس فتنے اور اس خوفناک مصیبت کے پاؤں کے بندھ کھول دیے اور اسے ہم پر نازل کر دیا ۔
فتنہ ئی پامال راہش محشری کشتہ ی تیغ نگاہش محشری
مطلب: یہ فتنہ ایسا ہولناک تھا کہ خود محشر بھی اسکی راہ میں روندا ہوا اور اسکی تیغ نگاہ سے ٹکڑے ٹکڑے تھا ۔
خفتہ صد آشوب در آغوش او صبح امروزی نزاید دوش او
مطلب: سینکڑوں طوفان اس کی گود میں سوئے ہوئے تھے ۔ اس کی گزشتہ کل کی یہ کیفیت تھی کہ اس سے امروز کی صبح پیدا نہیں ہو سکتی تھی(اس فتنہ نے ہر چیز کا خاتمہ ہمیشہ کے لیے کر دیا ۔ نہ زندگی رہی نہ امید نہ گزشتہ کل کے بعد امروز کے پیدا ہونے کا کوئی امکان رہا ۔ )
سطوت مسلم بخاک و خون تپید دید بغداد آنچہ روما ہم ندید
مطلب: اس فتنے نے ملت اسلامیہ کی قوت کو خاک و خون میں تڑپا دیا ۔ بغداد کو جو ملت کا مرکز تھا وہ کچھ دیکھنا پڑا جو رومہ نے بھی نہیں دیکھا ۔ دوسرے مصرع کا مطلب یہ ہے کہ رومہ پر وحشی قبیلوں نے خوفناک حملے کر کے لوٹ مار اور تباہی مچا دی ۔ لیکن چنگیز کے پوتے ہلاکو نے ایک ہی حملے میں بغداد کے اندر و تباہی پھیلائی وہ خونریزی کی کہ رومہ نے تو اس کا تصور بھی نہیں کیا ہو گا ۔
تو مگر از چرخ کج رفتار پرس زان نو آئین کہن پندار پرس
مطلب: اے مخاطب یہ آسمان جس کی چال ہمیشہ ٹیڑھی رہی جس کی عقل بہت پرانی اور پختہ ہے ساتھ ہی وہ نئے نئے حیلے اور نئے نئے ہتھکنڈے تجویز کرتا رہتا ہے ہمارا دشمن تھا ۔
آتش تاتاریان گلزار کیست شعلہ ہای او گل دستار کیست
مطلب: مگر اس سے پوچھ ، تاتاریوں کی جلائی ہوئی آگ کس کا گلزار بنی اور اس کے شعلے پھول بن کر کس کی زینت دستار ہوئے
زانکہ ما را فطرت ابراہیمی است ہم بہ مولا نسبت ابراہیمی است
مطلب: ہماری فطرت میں حضرت ابراہیم کی خصوصیت موجود ہے ۔ خدا سے ہماری نسبت بھی وہی ہے جو حضرت ابراہیم کی تھی ۔
از تہ آتش بر اندازیم گل نار ہر نمرود را سازیم گل
مطلب: ہم انہیں کی ملت ہیں جس طرح حضرت ابراہیم کے لیے آگ گلزار بن گئی تھی اسی طرح ہم ہر آگ کے نیچے پھول پیدا کر لیتے ہیں اور ہر نمرود کی آگ گلزار بنا لیتے ہیں ۔
شعلہ ہای انقلاب روزگار چون بباغ ما رسد گردد بہار
مطلب: بلاشبہ زمانے کے پاس انقلاب کے شعلے موجود ہیں لیکن یہ شعلے ہمارے باغ میں پہنچتے ہیں تو بہار بن جاتے ہیں ۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ہم مسلمان بہ حیثیت ملت مر نہیں سکتے ۔ ہم پر مصیبتیں تو آ سکتی ہیں مگر وہ ہمیں ختم نہیں کر سکتیں ۔ اس کے برعکس ہم ان مصیبتوں کو اپنے لیے فروغ و ترقی کا ذریعہ بھی بنا لیتے ہیں ۔ وہی تاتاری اور ترک جنھوں نے ہماری سات سو سال کی عظمت کو نقصان پہنچایا تھا جب انھوں نے خود اسلام کو قبول کیا تو اسلام کی حفاظت کے لیے ڈٹ گئے ۔
رومیان را گرم بازاری نماند آن جہانگیری ، جہانداری نماند
مطلب: ایک زمانہ تھا جب رومیوں کا بازار حکومت گرم تھا ۔ انھوں نے بہت بڑی سلطنت پیدا کر لی تھی ۔ لیکن ان کی جہانگیری اور حکومت ختم ہو گئی ۔
شیشہ ی ساسانیان در خون نشست رونق خمخانہ ی یونان شکست
مطلب: ایران کے ساسانیوں کا شیشہ شراب کی جگہ خون سے بھر گیا یعنی وہ بھی ختم ہو گئے ۔ یونان کے شراب خانے کی رونق بھی جاتی رہی ۔
مصر ہم در امتحان ناکام ماند استخوان او تہ اھرام ماند
مطلب: مصر بھی امتحان میں ناکام رہا اور اس کی ہڈیاں قدیم مقبروں میں پڑی رہ گئیں ۔ یعنی وہ بڑی بڑی قو میں مٹ گئیں ۔
در جہان بانگ اذان بودست و ہست ملت اسلامیان بودست و ہست
مطلب: ان کے برعکس ملت اسلامیہ پہلے بھی تھی اور اب بھی موجود ہے ۔ اذان کی صدائے حق دنیا کی فضا میں پہلے بھی بلند ہو رہی تھی اور اب بھی بلند ہے ۔
عشق آئین حیات عالم است امتزاج سالمات عالم است
مطلب : ہمارے دوام کا سبب کیا ہے دیکھو، اس دنیا کی زندگی کا دستور عشق ہے اور عشق ہی کی بدولت اس کے مختلف اجزا و عناصر میں میل جول اور ربط قائم ہے ۔
عشق از سوز دل ما زندہ است از شرار لا الہ تابندہ است
مطلب : عشق ہمارے دل ہی کی حرارت کے باعث زندہ ہے ۔ کلمہ توحید کی چنگاری سے اس میں چمک دمک ہے ۔
گرچہ مثل غنچہ دلگیریم ما گلستان میرد اگر میریم ما
مطلب: اگرچہ ہم کلی کی طرح ملول اور دلگیر ہیں تاہم اگر ہم مر جائیں تو پورا گلستان مر جائے گا ۔ جب تک ہم ہیں یہ دنیا قائم ہے جب ہم نہ ہوں گے تو یہ بھی ختم ہو جائے گی ۔