Please wait..

دربیان این کہ تربیت خودی را سہ مراحل است مرحلہ اول را اطاعت و مرحلہ دوم را ضبط نفس و مرحلہ سوم را نیابت الہٰی نامیدہ اند
(اس بیان میں کہ خودی کی تربیت کے تین مرحلے ہیں ۔ پہلے مرحلے کو اطاعت اور دوسرے مرحلے کو ضبط نفس اور تیسرے مرحلے کو نیابت الٰہی کا نام دیا گیا ہے ۔

مرحلہ اول: اطاعت

 
خدمت و محنت شعار اشتر است
صبر و استقلال کار اشتر است

مطلب: خدمت اور محنت مشقت کرتے رہنا اونٹ کا شیوہ ہے ۔ صبر اور ثابت قدمی ہی اس کا کام ہے ۔

 
گام او در راہ کم غوغاستے
کاروان را زورق صحراستے

مطلب: راستہ چلتے ہوئے اس کے پاؤں سے شور کم پیدا ہوتا ہے ۔ وہ قافلے کے لیے صحرا کا جہاز ہے ۔

 
نقش پایش قسمت ہر بیشہ ئی
کم خور و کم خواب و محنت پیشہ ئی

مطلب: اسکے پاؤں کے نشان ہر جنگل اور صحرا کا مقدر ہیں ( ہر جگہ چلتا ہے) ۔ وہ کم کھاتا ہے، کم سوتا اور محنت و مشقت کو اپنی روش بنائے رکھتا ہے ۔

 
مست زیر بار محمل می رود
پاے کوبان سوے منزل می رود

مطلب: وہ محمل (کجاوے) کا بوجھ اٹھائے مزے مزے سے چلتا ہے، پاؤں چلاتے مارتے (رقص کرتا ہوا) منزل مقصود کی طرف بڑھا چلا جاتا ہے ۔

 
سرخوش از کیفیت رفتار خویش
در سفر صابر تر از اسوار خویش

مطلب: وہ اپنی رفتار کے نشے میں مگن ہو کر چلتا ہے ۔ سفر میں وہ اپنے سوار کے مقابلے میں زیادہ صبر سے کام لیتا ہے ۔ (ان اشعار میں علامہ نے اطاعت اختیار کرنے پر زور دیا ہے اور اس کے لیے وہ اونٹ کی مثال لائے ہیں ، جو ان کے نزدیک اطاعت کا ایک عملی نمونہ ہے) ۔

 
تو ہم از بار فراءض سرمتاب
بر خوری از عندہُ حسن المآب

مطلب: (اے انسان) ان فرضوں کے بوجھ سے سرتابی نہ کر، منہ نہ موڑ، جو خدا نے تیرے ذمے لگا دیئے ہیں ۔ تاکہ تو عندہُ حُسن المآب کا پھل پائے ۔ اس طرح تو اس بہترین ٹھکانے پر پہنچ جائے گا جو خدا کے پاس ہے ۔

 
در اطاعت کوش اے غفلت شعار
می شود از جبر پیدا اختیار

مطلب: اے غفلت کے عادی انسان تو اطاعت خداوندی کی کوشش کر، یاد رکھ کی جبر ہی سے اختیار پیدا ہوتا ہے ۔

 
ناکس از فرمان پذیری کس شود
آتش ار باشد ز طغیان خس شود

مطلب: سچے احکام کی پابندی ایسی شے ہے جو نکمے اور بے حقیقت آدمی کو بھی واقعی انسان بنا دیتی ہے ۔ اس کے برعکس سرکشی اور نافرمانی کا یہ حال ہے کہ اگر وہ آگ بھی ہے تو سرکشی کی بنا پر اس کی حقیقت تنکے کی سی ہو جاتی ہے ۔

 
ہر کہ تسخیر مہ و پروین کند
خویش را زنجیری آئین کند

مطلب: جو کوئی چاند ستاروں کو تسخیر کرتا ہے وہ (پہلے) اپنے آپ کو آئین کا مقید و پابند بناتا ہے ۔

 
باد را زندان گل خوشبو کند
قید بو را نافہ ی آہو کند

مطلب: ہوا پھول کی قید خانے میں بند ہو کر خوشبو بن جاتی ہے ۔ یہی قید خوشبو کو ہرن کا نافہ بنا دیتی ہے ۔

 
می زند اختر سوی منزل قدم
پیش آئینی سر تسلیم خم

مطلب: ستارہ منزل کی طرف قدم اٹھاتا ہے تو اطاعت کا سر جھکائے ہوئے چلتا ہے ۔

 
سبزہ بر دین نمو روئیدہ است
پایمال از ترک آن گردیدہ است

مطلب: سبزہ بڑھنے پھولنے کے نظام کے تحت اگتا ہے(اگر)وہ اس نظام سے پہلو تہی کرے تو وہ پاؤں کے نیچے روندا جاتا ہے ۔

 
لالہ پیہم سوختن قانون او
بر جہد اندر رگ او خون او

مطلب : لالہ یعنی گل لالہ کا آئین و دستور مسلسل جلتے رہنا ہے (اس کے رنگ کی طرف اشارہ ہے) اس کی رگوں میں اس کا خون دوڑتا رہتا ہے ۔

 
قطرہ ہا دریاست از آئین وصل
ذرہ ہا صحراست از آئین وصل

مطلب: باہم مل جانے کے نظام کی بنا پر قطرے دریا کی شکل اختیار کر جاتے ہیں ۔ اسی باہمی ملاپ کے دستور کے سبب ذرے صحرا بن جاتے ہیں ۔

 
باطن ہر شی ز آئینی قوی
تو چرا غافل از این سامان روی

مطلب: ہر چیز کا باطن کسی نہ کسی آئین کی وجہ سے مضبوط و مستحکم بنتا ہے ۔ (تو پھر) تو نے کس لیے اس پابندی اور فرمانبرداری کو پس پشت ڈال رکھا ہے کیوں غفلت برت رہا ہے ۔

 
باز ای آزاد دستور قدیم
زینت پا کن ہمان زنجیر سیم

مطلب: اے پرانے آئین و دستور سے بے تعلق (مسلمان) تو پھر سے وہی چاندی کی زنجیر پاؤں میں ڈال لے ۔

 
شکوہ سنج سختی آئین مشو
از حدود مصطفی بیرون مرو

مطلب: آئین کی سختی کا گلہ شکوہ نہ کر، رسول اللہ ﷺ کے مقرر کردہ آئین و دستور کے دائرے سے باہر نہ نکل ۔

مرحلہ دوم: ضبط نفس

 
نفس تو مثل شتر خود پرور است
خود پرست و خود سوار و خود سر است

مطلب: تیرا نفس اونٹ کی طرح اپنے آپ کو پالنے والا ہے، ساتھ ہی وہ خود پسند، اپنا سوار آپ (اپنے آپ پر کسی کا اقتدار روا نہیں رکھتا) اور ضدی اور سرکش بھی ہے ۔

 
مرد شو آور زمام او بکف
تا شوی گوہر اگر باشی خزف

مطلب: تو مرد بن (اپنے اندر مردانگی پیدا کر) اور نفس کی لگام ہاتھ میں تھام لے ۔ اس پر قابو پا لے تا کہ اگر تو ٹھیکری ہے تو گوہر بن جائے ۔

 
ہر کہ بر خود نیست فرمانش روان
می شود فرمان پذیر از دیگران

مطلب: جس کا بھی اپنے آپ (نفس) پر حکم نہیں چلتا وہ دوسروں ہی کا حکم ماننے پر لگا رہتا ہے (فرمانبردار بن جاتا ہے) ۔

 
طرح تعمیر تو از گل ریختند
با محبت خوف را آمیختند

مطلب: تیرے وجود کی تعمیر مٹی سے ہوئی ہے ۔ یعنی تو آب وگِل سے بنا ہے اس تعمیر میں محبت اور خوف کی باہم آمیزش کی گئی ہے ۔

 
خوف دنیا، خوف عقبیٰ ، خوف جان
خوف آلام زمین و آسمان

مطلب: (تیرے دل میں ) دنیا کا خوف ہے، آخرت کا خوف ہے جان کا خوف ہے، زمین اور آسمان سے نازل ہونے والی آفتوں کا خوف ہے ۔

 
حب مال و دولت و حب وطن
حب خویش و اقربا و حب زن

مطلب: (اور محبت کی قسمیں کچھ اس طرح ہیں ) مال و دولت کی محبت اور وطن کی محبت، اپنے عزیزوں رشتہ داروں کی محبت اور عورت یا بیوی کی محبت ۔

 
امتزاج ما و طین تن پرور است
کشتہ ی فحشا ہلاک منکر است

مطلب: پانی اور مٹی کا آمیزہ و مرکب جسم کی پرورش کرنے والا ہے ۔ وہ برائیوں اور بدکاریوں کا شکار بن جاتا ہے ۔

 
تا عصائی لا الہ داری بدست
ہر طلسم خوف را خواہی شکست

مطلب: جب تک تیرے ہاتھ میں لا الہ (کلمہ توحید) کا عصا ہے تو خوف اور ڈر کے ہر طلسم کو توڑ کے رکھ دے گا ۔

 
ہر کہ حق باشد چو جان اندر تنش
خم نگردد پیش باطل گردنش

مطلب: جس کسی کے جسم میں حق جان کی طرح موجود ہے اس کی گردن کبھی باطل کے سامنے نہیں جھک سکتی ۔

 
خوف را در سینہ ی او راہ نیست
خاطرش مرعوب غیراللہ نیست

مطلب: اس کے سینے میں خوف کا گزر ہو ہی نہیں سکتا، اس کا دل خدا کے سوا کسی شے سے نہیں ڈرتا ۔

 
ہر کہ در اقلیم لا آباد شد
فارغ از بند زن و اولاد شد

مطلب: جو شخص لا کی مملکت میں آباد ہو گیا وہ بال بچوں (دنیوی دھندوں وغیرہ )کی زنجیر سے بالکل آزاد ہو گیا ۔

 
می کند از ما سوی قطع نظر
می نہد ساطور بر حلق پسر

مطلب: وہ جو غیر اللہ سے نظریں ہٹا لیتا ہے وہ اپنے بیٹے کے حلق پر چھرا رکھ دینے میں بھی پس و پیش نہیں کرتا ۔

 
با یکی مثل ہجوم لشکر است
جان بچشم او ز باد ارزان تر است

مطلب: اگرچہ وہ ایک تنہا ہونے کے باوصف ایک بہت بڑے لشکر کی صورت ہے، اس کی نظروں میں اس کی جان ہوا سے بھی کہیں سستی ہے( جو شخص جان سے بے پرواہ ہے ان کی قوت کا انداہ کون کر سکتا ہے ۔ ) آخری شعر میں اسی پختہ محبت و ایمان کی ایک اور مثال سے وضاحت کی گئی ہے ۔ ایسا شخص یعنی مرد مومن چونکہ باطل قوتوں سے خوف زدہ نہیں ہوتا اس لیے وہ ان قوتوں سے ٹکر لے لیتا ہے ۔ اس صورت میں اسے اپنی جان کا ذرا بھر بھی احساس نہیں ہوتا، بلکہ غالب کے لفظوں میں اس کا احساس کچھ اس طرح کا ہوتا ہے ۔ جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی ۔ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا تنہا ہونے سے مراد باطل قوت کے مقابلے میں بہت کم جمیعت ہونے والا بھی ہے ۔ اس کے بہترین مثال حضرت امام حسین علیہ السلام کی ہے جن کے بارے میں کہا گیا ہے ۔ سرداد، نہ داد دست در دست یزید حقا کہ بناے لا الٰہ ہست حسین یعنی جان دے دی لیکن یزید کی باطل قوت کی بیعت نہیں کی، بلا شبہ حسین لا الٰہ کی بنیاد ہیں ۔

 
لا الہ باشد صدف گوہر نماز
قلب مسلم را حج اصغر نماز

مطلب: لا الٰہ سیپی ہے تو نماز گوہر (موتی ) ہے ۔ مسلمان کے دل کے لیے نماز، حج اصغر کا درجہ رکھتی ہے ۔

 
در کف مسلم مثال خنجر است
قاتل فحشا و بغی و منکر است

مطلب : (یہ نماز) مسلمان کے ہاتھ میں ایک خنجر کی مانند ہے ۔ یہ بُری اور بے حیائی کی باتوں ، خدائی احکام سے سر تابی اور برے کاموں کو ختم کر دینے والی ہے ۔

 
روزہ بر جوع و عطش شبخون زند
خیبر تن پرورے را بشکند

مطلب: روزہ، بھوک اور پیاس پر شب خون مارتا ہے وہ (روزہ) صرف بدن کی پرورش کرنے والے خیبر کو فتح کرتا ہے ۔ یعنی تن پروری باقی نہیں رہتی ۔

 
مومنان را فطرت افروز است حج
ہجرت آموز و وطن سوزست حج

مطلب: حج مومنوں کی فطرت کو منور یعنی ان کے ایمان میں اضافہ کرنے والا ہے ۔ حج گھر بار چھوڑنے کی تعلیم دیتا ہے اور وطن کی محبت دل سے نکال دیتا ہے ۔

 
طاعتی سرمایہ ی جمیعتی
ربط اوراق کتاب ملتی

مطلب: وہ (حج) ایک ایسی عبادت ہے جو (پوری ملت اسلامیہ) ایک لڑی میں پرونے والی اور ملت کی کتاب کی شیرازہ بندی کرنے والی ہے ۔

 
حب دولت را فنا سازد زکوٰۃ
ہم مساوات آشنا سازد زکوٰۃ

مطلب: زکواۃ ، مال و دولت کی محبت کو مٹا دیتی ہے ۔ زکواۃ (ملت کے افراد کو) برابری سے بھی آگاہ کرتی ہے یعنی سب مسلمان برابر ہیں ۔

 
دل ز حتی تنفقو محکم کند
زر فزاید الفت زر کم کند

مطلب: یہ (زکواۃ) حتیٰ تنفقو کے ارشاد ربانی سے دل کو مضبوط کرتی ہے ۔ دولت کو برکت عطا کرتی اور اس (دولت) میں محبت میں کمی کا باعث بنتی ہے ۔

 
این ہمہ اسباب استحکام تست
پختہ ی محکم اگر اسلام تست

مطلب: یہ سب (ارکان اسلام) تیری پختگی و مضبوطی کا سامان ہیں ۔ اگر تیرا اسلام مضبوط ہے تو تو خود بھی مضبوط ہے ۔

 
اہل قوت شو ز ورد یا قوی
تا سوار اشتر خاکی شوی

مطلب: یا قوی کے ورد سے اپنے آپ کو صاحب قوت بنا لے تا کہ تو مٹی کے اونٹ پر سوار ہو جائے(نفس پر قابو پا لے) ۔ ان اشعار میں اسلام کے پانچ بنیادی ارکان کا ذکر کر کے ان کی اہمیت و افادیت بیان کی گئی ہے ۔ ان پر عمل کرنے سے اسلامی معاشرہ دنیا کا ایک عظیم معاشرہ بن سکتا ہے) ۔

مرحلہ سوم: نیابت الٰہی

 
گر شتر بانی جہانبانی کنی
زیب سر تاج سلیمانی کنی

مطلب: اگر تو شتربان بن جائے (نفس کے اونٹ کو قابو میں لے آئے) تو دنیا پر حکم چلائے گا اور سلیمان کا تاج تیرے سر کی زینت بنے گا ۔

 
تا جہان باشد جہان آرا شوی
تاجدار ملک لا یبلیٰ شوی

مطلب: جب تک یہ دنیا قائم ہے تو اس کو سجانے والا رہے گا اور اس ملک کا تاجدار بن جائے گا جس پر کبھی زوال نہ آئے گا ۔

 
نایب حق در جہان بودن خوش است
بر عناصر حکمران بودن خوش است

مطلب: دنیا میں اللہ کا نائب بننا اچھی بات ہے ۔ عناصر پر حکمرانی کرنا کتنا اچھا ہے ۔

 
نایب حق ہمچو جان عالم است
ہستی او ظل اسم اعظم است

مطلب: خدا کا نائب، دنیا کی روح کی مانند ہے، اس کا وجود اسم اعظم کا سایہ ہوتا ہے ۔

 
از رموز جزو و کل آگہ بود
در جہان قائم بامراللہ بود

مطلب: وہ اس کائنات کی ہر ہر شے کے تمام بھید جانتا ہے اور دنیا میں اللہ کی طرف سے مامور ہوتا ہے (اللہ کے حکم جاری کرنا اس کا اصل کام ہے) ۔

 
خیمہ چون در وسعت عالم زند
این بساط کہنہ را برہم زند

مطلب: جب وہ کائنات (دنیا) کی وسعتوں میں خیمہ لگا لیتا ہے تو اس پر پرانی بساط کو الٹ کے رکھ دیتا ہے(درہم برہم کر دیتا ہے) ۔

 
فطرتش معمور و می خواہد نمود
عالمی دیگر بیارد در وجود

مطلب : اس کی فطرت برکتوں اور اچھائیوں سے بھری ہوتی ہے اس کا اظہار وہ ایک نئی دنیا کے وجود میں لانے سے کرنا چاہتا ہے ۔

 
صد جہان مثل جہان جزو و کل
روید از کشت خیال او چو گل

مطلب: اس کائنات جیسے سینکڑوں عالم اس کے خیالات اور افکار کی کھیتی سے پھول کی طرح اگتے رہتے ہیں ۔

 
پختہ سازد فطرت ہر خام را
از حرم بیرون کند اصنام را

مطلب: وہ خام فطرت کو پختہ اور پائیدار بنا دیتا ہے، وہ حرم سے بتوں کو باہر نکال دیتا ہے ۔

 
نغمہ زا تار دل از مضراب او
بہر حق بیداری او خواب او

مطلب: اس کے مضراب سے دل کے ساز میں سے نغمے پھوٹنے لگتے ہیں ۔ اس کا جاگنا اور اس کا سونا سب اللہ کے لیے ہوتا ہے ۔

 
شیب را آموزد آہنگ شباب
می دہد ہر چیز را رنگ شباب

مطلب: وہ بڑھاپے کو جوانی کی لے (جوانی کا سا عزم و ولولہ) سکھا دیتا ہے وہ ہر چیز کو شباب کے رنگ میں رنگ دیتا ہے ۔

 
نوع انسان را بشیر و ہم نذیر
ہم سپاہی ہم سپہگر ہم امیر

مطلب: وہ بنی نوع انسان کے لیے خوش خبری دینے والا بھی ہے اور اسے برائی سے ڈرانے والا بھی وہ سپاہی بھی ہوتا ہے وہ فوج کا سپہ سالار بھی ہے اور سردار بھی ۔

 
مدعای علم الاسماستی
سر سبحان الذی اسراستی

مطلب: وہ علم الاسماء کا مقصود و مدعا ہوتا ہے وہ (نائب خدا) سبحان الذی اسرا کا بھید (راز) ہوتا ہے ۔

 
از عصا دست سفیدش محکم است
قدرت کامل بعلمش توام است

مطلب: عصا سے اس کا سفید ہاتھ مضبوط ہے، اس کا مکمل اختیار قدرت اسکے علم کے ساتھ ملا ہوا ہے(اس کا علم اور قدرت کامل دونوں جڑواں ہوتے ہیں ) ۔

 
چون عنا گیرد بدست آن شہسوار
تیز تر گردد سمند روزگار

مطلب: جب وہ شہسوار اپنے ہاتھوں میں زمانے کے گھوڑے کی باگ تھام لیتا ہے تو اس (گھوڑے) کی رفتار اور بھی تیز ہو جاتی ہے ۔

 
خشک سازد ہیبت او نیل را
می برد از مصر اسرائیل را

مطلب: اس کا رعب و دبدبہ دریائے نیل کو خشک کر دیتا ہے، وہ اسرائیل کو لے کر مصر سے باہر نکل جاتا ہے (تاکہ فرعون کی غلامی سے نجات پائیں ) ۔

 
از قم او خیزد اندر گور تن
مردہ جانہا چون صنوبر در چمن

مطلب: اس کے قم (اٹھ، اللہ کے حکم سے) کہنے سے مری ہوئی جانیں بدن کی قبر میں یوں اٹھ کھڑی ہوتی ہیں جس طرح صنوبر کا درخت باغ میں اگتا ہے ۔

 
ذات او توجیہ ذات عالم است
از جلال او نجات عالم است

مطلب: اس کی شخصیت (اس کا وجود ) کائنات کے وجود کی دلیل یا تفسیر ہے ۔ اس کے جلال و عظمت پر دنیا کی نجات موقوف ہے ۔

 
ذرہ خورشید آشنا از سایہ اش
قیمت ہستی گران از مایہ اش

مطلب: اس کے سائے کی حفاظت سے ذرہ بھی خورشید آشنا (سورج سے شناسائی کرنے والا) بن جاتا ہے اس کے سرمایہ زندگی سے کائنات کی قدر وقیمت (علوم و روحانیت)بڑھ جاتی ہے ۔

 
زندگی بخشد ز اعجاز عمل
می کند تجدید انداز عمل

مطلب: وہ اپنے زور عمل کے اعجاز سے ہر شے کو زندگی عطا کرتا ہے وہ عمل کے انداز کو نئے سرے سے زندہ کر دیتا ہے (عمل کے طور طریقے سراسر نئے ہو جاتے ہیں ) ۔

 
جلوہ ہا خیزد ز نقش پای او
صد کلیم آوارہ ی سینای او

مطلب: اس کے پاؤں کے نقش سے کئی جلوے پھوٹتے ہیں ، سینکڑوں کلیم اس کے سینا پہنچنے کے لیے آوارہ پھرتے ہیں (بیتاب نظر آتے ہیں ) ۔

 
زندگی را می کند تفسیر نو
می دہد این خواب را تعبیر نو

مطلب: وہ زندگی کی نئی تفسیر کرتا ہے اور اس خواب کو نئی تعبیر دیتا ہے ۔

 
ہستی مکنون او راز حیات
نغمہ ی نشیندہ ی ساز حیات

مطلب: اس کی پوشیدہ شخصیت زندگی کا راز ہوتی ہے وہ زندگی کے ساز کا ایسا نغمہ ہے جو پہلے کبھی سنا نہ گیا ہو ۔

 
طبع مضمون بند فطرت خون شود
تا دو بیت ذات او موزون شود

مطلب: نئے نئے خیالات و مضامین باندھنے والی فطرت کی طبیعت خون ہو جاتی ہے کاوش کرتے کرتے گھل گھل کر لہو بن جاتی ہے تب کہیں اس کی ذات کے متعلق دو شعر موزوں ہوتے ہیں ۔

 
مشت خاک ما سر گردون رسید
زین غبار آن شہسوار آید پدید

مطلب: ہماری خاک کی مٹھی آسمان پر جا پہنچی (اب ) اس غبار سے وہ شہسوار (خدا کا خلیفہ) ظاہر ہو گا ۔

 
خفتہ در خاکستر امروز ما
شعلہ ی فردای عالم سوز ما

مطلب: کائنات کو جلا دینے والا ہمارے ہمارے آنے والا کل کا شعلہ ہمارے آج کی راکھ میں سویا پڑا ہے ( جو کل چمکے گا تو دنیا کے لیے روشنی پہنچائے گا) ۔

 
غنچہ ی ما گلستان در دامن است
چشم ما از صبح فردا روشن است

مطلب : ہمارا غنچہ اپنے دامن میں گلستاں سمیٹے ہوئے ہے ۔ ہماری آنکھ آنے والی صبح کے نور سے روشن ہے ۔

 
ای سوار اشہب دوران بیا
ای فروغ دیدہ ی امکان بیا

مطلب: اے زمانے کے گھوڑے پر سوار، آ جا، اے امکان (اس کائنات) کی آنکھوں کا نور ہے ، روشنی ہے ، آ جا (نمودار ہو جا) ۔

 
رونق ہنگامہ ی ایجاد شو
در سواد دیدہ ہا آباد شو

مطلب: تو ہنگامہ ایجاد (موجودات عالم) میں رونق پیدا کر دے ۔ آنکھوں کی پتلیوں میں آباد ہو جا ۔

 
شورش اقوام را خاموش کن
نغمہ ی خود را بہشت گوش کن

مطلب: دنیا کی قوموں نے جو ہنگامہ برپا کر رکھا ہے اسے ختم (خاموش) کر دے ۔ اپنے نغمے کو (انسانوں ) کی سماعت کے لیے بہشت کی سی تازگی والا بنا دے ۔

 
خیز و قانون اخوت ساز دہ
جام صہبای محبت باز دہ

مطلب: اٹھ اور بھائی چارے کا ساز چھیڑ، محبت کی شراب کا جام پھر سے دے(تقسیم کر دے) ۔

 
باز در عالم بیار ایام صلح
جنگجویان را بدہ پیغام صلح

مطلب: ایک مرتبہ پھر دنیا میں صلح اور امن کا دور لے آ، جنگ و فساد پر آمادہ لوگوں کو صلح کا پیغام دے ۔

 
نوع انسان مزرع و تو حاصلی
کاروان زندگی را منزلی

مطلب: بنی نوع انسان کھیت ہے اور تو اس کا حاصل ہے، تو زندگی کے قافلے کی منزل مقصود ہے ۔

 
ریخت از جور خزان برگ شجر
چون بہاران بر ریاض ما گذر

مطلب: درخت کے پتے، خزاں کے ستم سے جھڑ گئے ہیں تو پھر موسم بہار کی صورت بن کر ہمارے باغ میں سے گزر ۔

 
سجدہ ہای طفلک و برنا و پیر
از جبین شرمسار ما بگیر

مطلب: تو ہماری ندامت سے ، شرمسار پیشانیوں سے (ہمارے) بچوں ، جوانوں اور بوڑھوں کے سجدے لے (نذر عقیدت پیش کرنے کے لیے بے قرار ہیں تو وہ قبول کر) ۔

 
از وجود تو سر افرازیم ما
پس بسوز این جہان سازیم ما

مطلب: تیرے وجود سے ہمیں سربلندی میسر ہے، سو اس دنیا کے سوز سے ہم نباہ کرتے چلے جا رہے ہیں ( ہم اس انتظار میں ہیں کہ تو نمودار ہو، آج ہم دنیا میں گھرے ہوئے ہیں ۔ )